بول!مرے پیچھے آئے گا،تجھے چین سے سونا؟
تحریر : محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ چار لاشیں کس کی ہیں، جن کے چہرے گلابوں کی مانند سرخ اور بدن لہو لہو ہیں؟
وہ چار لاشیں کس کی ہیں جو گذشتہ تین دنوں سے بنو خیل میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں؟
وہ چار لاشیں کس کی ہیں جن کے قتل کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی پر وہ قتل کیے گئے ہیں۔
وہ چار لاشیں کس کی ہیں جن میں سے ایک کے سر پر دھڑ موجود نہیں
پھر بھی اک ماں آگے بڑھ کر پہچان گئی کہ یہ تو میرا رفع اللہ ہے!
وہ چار لاشیں کس کی ہیں جن کے تابوت پاکستانی میڈیا کو نظر نہیں آ رہے اور پاکستانی میڈیااب تکPDMاور مولانا کے گرد گھوم رہی ہے
یہ چار لاشیں کس کی ہیں جن پر ابھی تک سرکار کی نظر نہیں پڑی حالاں کہ ان لاشوں سے جو نعروں اُٹھ رہے ہیں وہ تو سرکار تک پہنچ گئے ہونگے پر پھر بھی سرکار ان چار لاشوں سے بے خبر ہے جو تابوت میں لپٹے ایسے پڑے ہوئے ہیں جیسے امسال ہزارہ گنج کی اداس سڑک پر ہزارہ کان کنوں کی اداس لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔
وہ چار لاشیں پہلے سفید کفن،بعد میں لکڑی کے تابوت اور اس کے بعد پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہیں کہ ان کے جسدی خاکے کہیں بارش میں بھیگ نہ جائیں،وہ اداس لہو لہو لاشیں بارش میں بھیگ بھی رہی ہیں اور ان لاشوں سے ٹپکتا لہو بارش کے مٹیالے پانی میں بھی شامل ہو رہا ہے،پر پھر بھی پاکستانی میڈیا کی نظر اس طرف نہیں جا رہی جس طرف ماتم کرتی مائیں،سوالیہ نشان بنی بہنیں اور بپھرے جوان یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہما رے نوجوانوں کو کس جرم میں قتل کیا گیا؟
وہ چار لہو لہو لاشیں نہیں پر سُلگتی آگ ہے، پر اس وقت اس سُلگتی آگ پر بارش برس رہی ہے اور وہ آگ اس بارش میں بھیگ رہی ہے نہیں معلوم کہ جب وہ بارش تھمے گی تو وہ آگ ملک کے کس کس کونے میں پہنچے گی جو اس وقت بس بنو خیل میں جل رہی ہے جس میں پورا بنو خیل جل رہا ہے!
میڈیا کی تو اس طرف نظر نہیں پر اب بنو خیل کی آگ سوشل میڈیا کی معرفت بھڑک اُٹھی ہے اور اگر اس آگ پر قابو نہ پایا گیا تو نہیں معلوم یہ بنو خیل کی آگ کہاں تک پہنچے گی جس آگ میں اس وقت تو بس بنو خیل ہی جل رہا ہے،بنو خیل سے آگے کیا ہوگا کون جانے؟
اس وقت میڈیا ان ماؤں کی آواز نہیں بن رہا جن ماؤں کے بیٹے بنو خیل کی پہاڑوں میں شکار کو گئے اور آپ شکار ہو گئے،ان کے جسموں کو بارود سے بھر دیا گیا اور ان ماؤں کی آنکھوں کو آنسوؤں سے اور ان کی صبح و شام کو ماتم سے!
وہ کون ہیں جنہوں نے ان ماؤں کو بیٹوں سے دور اور ماتم کے قریب کر دیا؟
وہ کون ہیں جنہوں نے ان معصوم کی گردن زنی کی؟
وہ کون ہیں جنہوں نے پہلے ان معصوموں کو مقتل گاہ پہنچایا پھر ان کے دھڑوں کو مٹی میں دفن کر دیا؟
وہ کون ہیں جو امن کے پہاڑوں میں وحشت کو پال رہے ہیں؟
وہ کون ہیں جن سے معصوم انسانیت برداشت نہیں ہو رہی؟
وہ کون ہیں جو قتل کرتے ہیں پر کرامات کی ماند نظر نہیں آتے؟
وہ کون ہیں جو قتل کر کے بہت آگے نکل جا تے ہیں اور مائیں ماتم کرتی بہت پیچھے رہ جا تی ہیں؟
وہ کون ہیں جو ماؤں پر شامِ غریباں لے آتے ہیں؟
ان ماؤں کی سب صبحیں،صبحیں شہیداں بنی ہوئی ہیں پر پاکستانی میڈیا ہے جس کی آنکھوں پر وہ پٹی بندھی ہوئی ہے جو پٹی کونیں پر چلنے والے گدھے کی آنکھوں پر بندھی ہوتی ہے جس کے آگے کچھ نظر نہیں آتا!
کیا پاکستانی میڈیا کو چار روز سے وہ لاشیں نظر نہیں آرہیں جو اب تک بنو خیل کی پہاڑیوں میں دفن نہیں ہوئیں، پر جن کے زخمی وجود سے لہو ٹپک رہا ہے اور وہ لہو برستی بارش میں مٹیالے پانی سے مل کر پھر سوالیہ نشان بن جاتا ہے کہ”ہمیں کب دفناؤ گے؟“
اور بہت دور بنو خیل کی پہاڑیوں سے آواز آتی ہے کہ
”جب ایک ماں رو رو کر بس کریگی“
اور وہ ماں رو رو کر کب بس گریگی؟
ماں تو بس رو تی ہے بے ہوش ہو جا تی ہے پھر رو تی ہے اور پھر بے ہوش ہو جا تی ہے اور پھر ہوش میں آکر رو تی ہے تو اک۔۔۔۔
بنو خیل کی بارشوں میں بھیگتی چار لاشیں اگر بنو خیل کی پہاڑیوں میں دفن ہو بھی جائیں تو کیا ان ماؤں کو سکون ملے گا جن کے خوبصورت بیٹے قتل ہو گئے اور کارِ سرکار نہیں رُکا۔
اگر وہ چار بھیگتی لاشیں دفن بھی ہو جائیں تو کیاان لاشوں کا بار بنو خیل کی پہاڑ برداشت کر پائیں گے جن کی طرف ہر روز منھ کر کے اک ماں ماتم کرتی رہے گی اور اپنے دفن شدہ بیٹے کو بُلاتی رہے گی!
اگر وہ لاشیں دفن ہوئیں تو وہ چار لاشیں نہ ہو نگی وہ آٹھ لاشیں ہو نگی
چار مقتولوں کی
چار ماتم کرتی ماؤں کی!
پاکستانی میڈیا کا تو اس طرف کوئی دھیان نہیں،وہ پی ڈی ایم کے مولانا فضل رحمن کے بے ہودہ بیان سے لیکر بلاول کی گلابی اردو تک اور نصیبو لال کے اس گیت کو تو بار بار نشر کرتی رہے گی جس کی وجہ سے نصیبو لا ل اس وقت تنقید کی زد میں ہے پر پاکستانی میڈیا وہ لاشیں اپنی اسکرین پر نہیں دکھائی گی
جو کفن،تابوت اور پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہیں
جو لہو لہو ہیں
جو بارش میں بھیگ رہی ہیں
جن سے ٹپکتا لہو مٹیالے پانی سے مل جاتا ہے
جن کے سرہانے مائیں ماتم کرتے کرتے بے ہوش ہو رہے ہیں
جن کے آس پاس وہ نعرے لگ رہے ہیں کہ کون سنے اور کیوں سنے؟
جن کے آس پاس بنو خیل جل رہا ہے
پر پاکستانی میڈیا ہے کہ لال حرم کی دوشیزہ بنی ہوئی ہے!
مائیں ماتم کرتے کرتے بے ہوش ہورہی ہیں
اور بارشوں میں بھیگتی لاشوں سے یہ آواز آتی ہے کہ
”بول!مرے پیچھے آئے گا،تجھے چین سے سونا؟“
اس کا جواب کسی کے پاس نہیں
نہ بنو خیل کی انتظامیہ کے پاس
نہ پاکستانی میڈیا کے پاس
نہ پاکستانی حکمرانوں کے پاس
پر حیرت یہ ہے کہ سوشل میڈیا آگ بن کر جل کیوں نہیں جاتا
اور سب کو یہ بتا کیوں نہیں دیتا کہ
بنو خیل میں بارش میں آگ جل اُٹھی ہے اور بارش چار لاشوں کو جلا رہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔