بلوچ یتیم مائیں
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ان ماؤں کی نیند ہی کیا پر ان ماؤں کی آنکھیں بھی ریتیلی مٹی میں دفن ہو گئی ہیں
یہ مائیں اب نہ تو رو تی ہیں اور نہ ہی کچھ دیکھتی ہیں
پر شاید یہ مائیں اب سنتی بھی نہیں
کیا؟
وہ آوازیں جن آوازوں کو سوگ والی کیفیت میں ”سڈڑا“کہا جاتا ہے
پر ہاں آنکھیں نہ ہونے کے باجود بھی ان ماؤں کی آنکھوں نماں کھول میں رتجگے ٹھہر سے گئے ہیں، ان ماؤں کو بہت سی شکایتیں ہیں،پر نہ تو ان ماؤں کے پاس کوئی جاتا ہے اور نہ ہی یہ مائیں اپنی بہت سی شکایات کسی کو کہہ پاتی ہیں،یہ خاموش رہتی ہیں یہ رونا بھی چاہتی ہیں،پر نہ تو ان ماؤں کے ماتھے میں آنکھیں ہیں،نہ آنکھوں میں دید،نہ دید میں آنسو اور نہ ہی ان آنسوؤں میں نمکین پن ۔
ان ماؤں کے پاس کچھ بھی نہیں
یہ بلوچستان کی یتیم مائیں ہیں
یہ بلوچ یتیم مائیں ہیں
یہ وہ مائیں ہیں جو کچھ نہیں جانتیں،
نہ آزادی کا فلسفہ،نہ آزادی کا گیت
نہ کتابوں کی رنگت،نہ کتابوں کے حروف
نہ سیا سی تقاریر،نہ حیلے بہانے
یہ قومی ترانے،نہ پر جوش خطابت
یہ لکھے پمفلٹ،نہ آویزہ بینر
یہ سرخ سویرہ،نہ کوئی آئین
یہ تو بس پہاڑوں کی معصوم مائیں ہیں،اپنے شوہروں سے وفا کرتی ہیں،پہاڑوں کے درمیاں کچے مکانوں میں بچے جنتی ہیں دو پتھروں کی پاٹ میں گندم پیستی ہیں،شام گئے ہی رات کا کھانا بنا تی ہیں دن کی روشنی میں رات کا بستر ٹھیک کرتی ہیں اور نماں شام کو ہی اپنے معصوم بچوں کو بغلوں میں داب کرنئے صبح تک سو جا تی ہیں
پر اب ایسا نہیں
اب ایسا کچھ بھی نہیں
اب تو ان ماؤں کے ماتھے میں آنکھیں ہی نہیں تو نیند کیسی؟اب تو ان ماؤں کی آنکھوں کے بجائے دل روتا ہے اور وہ بھی نمکین آنسو نہیں،خون کے آنسو،پر دکھ تو یہ ہے کہ یہ لہو لہو اشک کوئی دیکھتا بھی نہیں
پر وہ مائیں اپنی ماتھے کی آنکھوں سے رونا چاہتی ہیں،وہ بین کرنا چاہتی ہیں
وہ اپنا دکھ سب کو بتانا چاہتی ہیں جس دکھ کی صلیب لیے وہ اندھی ہو چکی ہیں
بلوچستان کی قومی اور پارلیمانی سیا ست تو اندھی ہو چکی ہے وہ ان ماؤں کا دکھ نہیں دیکھ پارہی۔
پر وہ مائیں اپنا دکھ اس ان سرمچاروں کو دکھانا چاہتی ہیں جو پہاڑوں کے دامنوں میں بیٹھ کر ماؤں کے دردوں میں رو رہے ہیں اور ان دکھی ماؤں سے واعدہ کر رہے ہیں
”حساب ہوگا
بہت جلد حساب ہوگا!“
یہ مائیں اپنا دکھ اس بلوچ ادب کو دکھانا چاہتی ہیں جو گذشتہ کئی سالوں سے ان ماؤں کو بھول کر ادبی میلوں میں کہیں کھو سا گیا ہے
وہ مائیں ان سرمچاروں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اک گولی پہاڑوں کے دامنوں میں ان کے دردوں کے لیے بھی چلاؤ جس گولی کی گونج میں ایسا خوف نہ ہو جس سے پہاڑوں کے دامنوں میں دفن ان کے بچے ڈر جائیں پر اس گولی کی گونج میں ایسی محبت ہو جس سن کر پہاڑوں کی اُوٹ میں دفن بلوچ ماؤں کے بچے یہ محسوس کریں کہ
”ایان رن مان رڑ اچے پئی اچے
متان سمجھیں کہ مُئا مور سارا!“
وہ مائیں ان سرمچاروں کو یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ اگر پہاڑوں کے دامنوں میں چلائی ان کے لیے گولی سے محبت کی گونج پیدا ہوئی تو وہ جہاں بھی ہیں آگے بڑھ کر ان سرمچاروں کے بڑے بالوں والے ماتھے کو چوم لیں گی
وہ مائیں بلوچ ادب سے بھی یہی کہہ رہی ہے کہ پہاڑوں کے درمیاں بھونکتی بندوقوں نے ان ماؤں کے کئی لال سلادیے اب کوئی ایسا گیت رچا جائے کوئی ایسی سیمفنی تخلیق کی جائے جس سے یا تو
درد تھم جائے
یا سوا ہو جائے،
اس رستے درد سے دل کو قرار نہیں!
وہ مائیں جن نے بچے جنیں
اور بھونکتی بندوقیں بچے کھا گئی
وہ مائیں جنہوں نے معصوم بچوں کے سروں میں تیل ڈالا
اور بالوں کو گنگی کی
وہی مائیں آج ان کے جسموں سے رستے لہو کو دیکھ رہی ہیں
وہ مائیں جنہوں نے معصوم بچوں پرمحبت سے نام رکھے
اب ان کی قبروں کو ٹٹول رہی ہیں
وہ مائیں جنہوں نے معصوم بچوں کے گالوں پر بوسے دیے
وہی مائیں اب اپنے ہاتھوں میں ان کی تصاویر لیے بیٹھی ہیں
وہ ماں تو اس بات سے ہی ڈرتی تھیں کہ ان کے پیا رے بچے یتیم نہ ہو جائیں
پر یہ کیسا درد ہے کہ آج بلوچستان میں مائیں یتیم ہو رہی ہیں
بچے ما رے جا رہے ہیں
جعلی مقابلوں میں
ماورہ عدالت قتلوں میں
آئین اور قانون سے اوپر مقابلوں میں
اور مائیں کہ رو رو کر یہی دہائی دیتی نظر آتی ہیں کہ
”انہیں تو کچھ ماہ پہلے پولیس اپنے ساتھ لے گئی تھی یہ پولیس مقابلہ کیسا ہے؟!!“
اور پولیس مقابلے ہیں جو پہاڑوں کے دامنوں
اور بلوچستان کی جھولی میں تواتر سے ہو رہے ہیں
اور بلوچستان کی مائیں یتیم ہو رہی ہیں
بلوچ ماؤں کی یتیم گیری سے کوئی بھی واقف نہیں
نہ قوم پرست،نہ مفاد پرست۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔