بلوچ طلباء سیاست، بحرانات اور بساک کا قومی کونسل سیشن – زبیر بلوچ

416

بلوچ طلباء سیاست، بحرانات اور بساک کا قومی کونسل سیشن

تحریر : زبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ساٹھ کی دہائی کے بعد کی تمام سیاسی پارٹیوں، تنظیموں، مکاتب فکر اور حتیٰ کہ ادبی تنظیموں تک کو جنم دے کر انہیں عقل و خرد اور شعور کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا دیا۔ بی ایس او کے مختلف دھڑے، قوم پرست پارٹیاں اور آج کے دور میں بساک بی ایس او کے خرد اور شعور کے ہی ثمرات ہیں۔

بساک کی بنیاد 2008 میں کمبر مالک اور اس کے دیگر ساتھیوں، جن میں خورشید کریم قابل ذکر ہیں، نے بیوٹمز یونیورسٹی میں ضلعی کوٹہ کے حصول اور دیگر طلبا حقوق کے لیے ڈالی ۔ بساک اور بی ایس او ایک ہی جدوجہد کی پیداوار ہیں ۔دونوں کی جدوجہد کا محور بلوچ طلبا اور بلوچ قومی و طبقاتی مفادات ہیں ۔ بلوچ طلبا سیاست کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو بی ایس او کی جدوجہد اور اس کے شاندار ماضی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بی ایس او نہ صرف طلبا سیاست بلکہ بلوچ قومی سیاست کی مادر تنظیم کی حیثیت سے کئی دہائیوں پر مشتمل اپنی سیاست میں بام عروج پر رہئ ہے ۔اس نے تمام پارٹیوں کو بالخصوص بلوچ قوم پرست پارٹیوں کو یا تو خود جنم دیا یا ان کو کیڈر مہیا کرکے انھیں فعال بنانے میں اپنا مادرانہ کردارادا کیا ۔

بی ایس او طویل سیاسی ترقی پسندانہ جدوجہد کے سفر طے کرنے کے باوجود ایک قومی سیاسی تنظیم کی جگہ لینے میں ناکام رہئ ہے ۔ بی ایس او بذات خود ایک طلبا تنظیم کی ناکامی سے دوچار نہیں ہے ۔لیکن ایک قومی طلبا تنظیم کی حیثیت سے خود کو منوانے میں وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ۔ جس کی وہ مستحق رہی ہے ۔ اس کی چند ایک وجوہات میں سے ایک وجہ تنظیمی بانجھ پن بھی ہے ۔ طلبا نے اپنی مادر علمی کو بانجھ کیا ہے ۔اس سے اب مزید کیڈر نکھر کر سامنے نہیں آرہے ۔ کیڈر نہ نکلنے کی بھی کئی وجوہات ہیں ۔اس میں قابل ذکر بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی ترجیحات کا بدل جانا ہے ۔ اب ان کا مقصد سیاسی کھیپ تیار کرنا نہیں بلکہ اقتدار کا حصول ہے ۔اقتدار کی منزل سیاسی کارکنوں کے ذریعے نہیں بلکہ ووٹ اور نوٹ سے حاصل کی جاتی ہے ۔

یہ بہت بڑی بحرانی کیفیت ہے ۔ بی ایس او کی گذشتہ اور موجودہ قیادت اس بحران سے تنظیم کو نکالنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس شدید بحرانی کیفیت نے مقدس تنظیم ، جس کے سرخ جھنڈے میں شہدا کا خون شامل ہے، کو تقسیم در تقسیم جیسے ردانقلابی عمل سے دوچار کیا ۔ بی ایس او کی تقسیم دراصل بلوچ طلبا سیاست اور بلوچ قومی و طبقاتی سیاست کی تقسیم ہے ۔ قومی سیاست جب انتشار خلفشار اور بحران کا شکار ہوگی تو اس سے سیاست کا بانجھ پن اور زوال پزیری لازمی امر ہوگا۔

بی ایس او کے انتشار نے جہاں ایک طرف بلوچ طلبا کو مایوسی، اضطراب، ذہنی الجھن میں ڈال دیا ہے، وہاں دوسری طرف ذاتی، گروہی مفادات، اقربا پروری، منافقت، جھوٹ، بہتان تراشی اور غیرسنجیدگی جیسے منفی جذبے بلوچ سیاسی اخلاقیات کا لازمی جزو بن کر روز بروز تقویت حاصل کررہے ہیں ۔ اس زوال پذیر، گراوٹ اور رجعت کے شکار اخلاقیات اور پراگندہ سیاسی کلچر نے ایک علمی اور نظریاتی بحران کو جنم دیا ہے ۔ علمی اور نظریاتی بحران روز بروز پختہ ہوتا جا رہا ہے ۔جڑ پکڑتے اس علمی و نظریاتی بحران کو ایک علمی و فکری سمت دینے کے لیےجمہوری و ترقی پسند اقداروں کو رواج دینے کی ضرورت ہے ۔ علم، نظریہ، جموری و ترقی پسند اقدار اور سیاسی کلچر مضبوط سیاسی تنظیم سے ممکن ہوسکتا ہے ۔

ان حالات میں جہاں بلوچ طلبا سیاست شدید ترین نظریاتی علمی اور سیاسی بحران، اختلافات، انتشار اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ۔تقسیم اس حد تک کہ ہر طلبا تنظیم دو دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے ۔ ایسے حالات میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا دوسرا قومی کونسل سیشن طلبا سیاست کے لیے نہ صرف نیک شگون ہے بلکہ امید کی ایک کرن بھی ہے ۔تنظیم نے اپنی تمام تر نظریاتی کنفیوژن اور مبہم سیاست کے باوجود قلیل معیاد میں بلوچستان کے طول و عرض میں جمی، ٹھہری ہوئی اور زوال پزیر سیاسی ماحول کو حرکت میں لا کر اور بلوچ طلبا سیاست کو وسعت دے کر ہر ھلک و گدان کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ بساک نے طلبا سیاست کے اندر قابل تعریف کارنامے سرانجام دئیے ہیں جن میں کتاب کاروان، لیکچر پروگرام، بک ریویو اور ثقافتی پروگرام قابل ذکر سرگرمیاں ہیں ۔جن کی وجہ سے طلبا ایک جذبے کے تحت سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کرکے منفی سرگرمیوں سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔مرکزی کونسل اور نئی قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں ،سائینسی طریقہ کار بحث و مکالمہ، تنقید و خود تنقیدی، ترقی پسندانہ، انسان دوست اور روشن خیال سوچ جیسے سنہری رہنما اصولوں کو دوام دے جو بلوچ سیاست اور تحریک کی سو سالہ وراثت ہے ۔ بلوچ سیاست کے ایک جزولاینفک کی حثیت سے نکھار کر بلوچ طلبا سیاست کو رجعت پرستی انتہا پسندی خواہ وہ قومی تنگ نظری کی شکل میں کیوں نہ ہو قبائیلی اور جاگیرداری سمیت ہر اس انقلاب دشمن عمل سے پاک و پلگار کرنے کی شعوری کوشش بلوچ طلبا سیاست کو اعلی اخلاقی، سیاسی، نظریاتی، منازل پر پہنچا کر ایک ترقی پسندانہ اور روشن خیال سماج کی تعمیر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے ایک مثالی بلوچ طلبا سیاست کی داغ بیل ڈالی جائے ۔

بساک کے شاندار کونسل سیشن پر بہت زیادہ امید اور آس لگائی جاسکتی ہے ۔تنظیم میں اچھے اور مخلص دوستوں کی ایک بہت بڑی کیھپ موجود ہے جو نئی شروعات کرکے ترقی پسند، قوم پرست سیاست اور جدوجہد کو مزید منظم اور متحرک کرنے کے لیے طلبا سیاست کے منتشر دھڑوں کو ایک لڑی میں پرو کر ایک مضبوط و مستحکم بلوچ طلبا تنظیم کی تعمیر میں اپنا قومی و انقلابی کردار ادا کر سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔