بلوچ خواتین کا کردار اور عالمی دن
تحریر: لطیف سخی
دی بلوچستان پوسٹ
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں 8 مارچ کو بطور خواتین کے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سب سے پہلا خواتین کا دن 19 مارچ 1911 کو منایا گیا۔پھر 1971کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال آٹھ مارچ کو باقاعدہ طور پر منایا جائے گا۔جس کا اہم مقصد تھا کہ عورت پر جسمانی تشدد ، نفسیاتی ٹارچر غصب شدہ حقوق کے حوالے سے آگہی دی جائے۔
اگر عالمی خواتین کے دن کو مد نظررکھ کر ہم بلوچ سماج کی بات کریں ہم ابھی بھی اس جدیدیت کے دور میں بھی بہت سے فرسودہ روایات کو فالو کر رہے ہیں۔ بلوچ سماج میں عورت کو بہت سی مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر بلوچ معاشرے میں عورت کی تاریخ کے اندر جائیں جس میں بے انتہا بہادری، عزم و استقلال کی مثالیں ملیں گی ۔جس میں بانڑی ،سمی ،حلیمیٰ سَدو ،ہانی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جنہوں نے سماجی آمریت یا ریاستوں کے ساتھ جنگ کرنے میں اپنے مَرد حضرات کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دشمن کا دیدہ دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا جس کی مثالیں داد شاہ کی بہن اور بہت ساری تاریخی واقعات کی صورت میں ہمیں ملتے ہیں۔
جس طرح گل خان نصیر کی کتاب بلوچستان کی تاریخ میں ہمیں بہت سارے جنگی داستانیں ملتے ہیں، بی بی زینب کا تنازعہ میر محمود خان قلات میں بھیگی بلی بن کر بیٹھا رہا اور جب میر مصطفیٰ خان اور میر رحیم خان دونوں بھائی کچھی کے بھینٹ چڑھ چکے، تب میر محمود خان کچھی تشریف لائے اور تمام علاقہ کچھی کو جو پہلے میر مصطفٰی کو دے دیا گیا تھا اپنے قبضے میں کرکے واپس ہوئے۔تو بی بی زینب کو یہ بات نا گوار گزری اور اس نے میر محمود خان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر کے تمام علاقہ کچھی سے اس کے نائبوں کو نکال باہر کیا۔
گل بی بی کی بلوچیت جس میں شاہسوار کی بیوی گل بی بی ایک حسین اور دلیر عورت تھی جب اسے خواہش کے قلعہ پر جنرل ڈائرکے پہنچ کر قبضہ کرنے اور سردار جیند اور شاہ سوار کی بزدلی اور دوُن ہتمی کا حال معلوم ہوا تو سخت برا فروختہ ہوئی اور شاہسوار کو سخت لعنت کی اور بزدل بیووقوف کہا اور انہیں بتایا کہ جنرل ڈائر صرف مٹھی بھر فوجیوں کے ساتھ خواہش پہنچ کر اپنی چالاکی سے انہیں دھوکہ دے کر بیوقوف بناگیا ہے۔
دوسری طرف عظیم بلوچ قومی رہنما صورت خان مری اپنے ایک بیان میں کہا ہے بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام مرد کے برابر لیکن ایک کمزور حیثیت کی مانند ہے بلوچ نے کبھی عورت کی حکمرانی کے بارے میں بھی مخاصحانہ رویہ نہیں اپنا یا قلات بیلہ اور دیگر قبائیلی علاقوں میں ماضی کی تاریخ میں ایسی متعددمورخیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے حکمرانی کی، اپنے دربار لگائے انتظامیہ چلائی اور جنگ کے میدان میں فوجوں کی قیادت کی۔
جسٹس رحمان کے بیٹے اسد رحمان جہنوں نے سنہ 1970 کے دوران لندن گروپ کے دیگر ارکان کے ساتھ بلوچ مزاحمتی تحریک کے دوران حصہ لیا اپنے ایک حال میں ایک بلوچ عورت کا زکر کیا جو اپنے کیمپ میں تنہا تھی اس عورت نے جب ایک فوجی پلاٹون کو آتے دیکھا تو اسلحہ اٹھا کر مقابلے پر ڈٹ گئی اور کئی گھنٹوں تک اس پلاٹون کو روکے رکھا ، وہ عورت اس دوران شدید زخمی ہوئی اور بعد میں فوت ہوگئی۔
جس طرح حال کا ایک جائزہ لیا جائے بلوچ معاشرے میں عورت اور اس کی جائز حقوق معاشرے میں برابری کی حوالے سے شھید وطن بانک کریمہ جیسی نڈر بیٹی تاریخ کے اہم پہلووں میں شامل ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔