ایس ایل ایف میں بلوچ سیشن کی معطلی: اصل معاملہ کیا ہے؟ تحریر : عابد میر 

531

ایس ایل ایف میں بلوچ سیشن کی معطلی: اصل معاملہ کیا ہے؟

تحریر : عابد میر 

دی بلوچستان پوسٹ

سندھ لٹریچر فیسٹول سندھ کا انڈیجینئس فیسٹول ہے، جہاں اس کی زبان و ادب سمیت ملک بھر کی سیاست اور سماج پہ بات ہوتی ہے۔ یہ اپنی جون میں نہایت پروگریسو اور عوام دوست فیسٹول ہے۔ سندھ کے نامور ادیب اعجاز منگی، نوجوان صحافی نصیر گوپانگ، زوہیب کاکا اور ناجیہ میر اس کے فاؤنڈنگ ممبر ہیں۔

میں اس خیال کے آئیڈیا ڈسکس ہونے سے لے کر اس کی عملی تفسیر تک اس کے ساتھ جڑا رہا ہوں۔ ہماری اسی باہمی دوستی اور سندھ بلوچستان کے تاریخی روابط کے پس منظر میں اس فیسٹول کے آغاز سے ہی ہر سال اس میں بلوچ اور بلوچستان پہ خصوصی سیشن رکھے جاتے رہے ہیں۔ لیاری کو بھی الگ سے اسپیس ملتا رہا ہے۔ پچھلے سال ہم نے بلوچ پارلیمانی سیاست پہ ایک سیشن ڈیزائن کیا۔ اس میں ڈاکٹر مالک بلوچ، ظہور بلیدی اور ثنا بلوچ کو مدعو کرنا چاہا اور ان تینوں سے رضامندی بھی لے لی۔ بدقسمتی سے عین وقت پہ کرونا کے باعث لاک ڈاؤن ہونے سے ایونٹ معطل ہو گیا۔

اس سال پھر جب ایونٹ ہونے لگا تو حسب معمول بلوچستان کے سیشن کی ذمے داری دوستوں نے مجھے سونپی۔ ہم نے پچھلا سیشن برقرار رکھنا چاہا مگر ڈاکٹر مالک میسر نہ ہوئے، ظہور بلیدی نے کوئی ہفتہ پہلے معذرت کر لی، ثنا بلوچ نے دو دن پہلے اسلام آباد میں مصروفیت کے باعث اسکائپ پہ آنے کی حامی بھری۔ یوں جو نیا پینل بنا اس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، یوسف مستی خان، ثنا بلوچ اور مہرنگ بلوچ فائنل پینلسٹ قرار پائے۔

آج ہمارے سیشن سے چند گھنٹے پہلے اچانک گومگو کیفیت میں بتایا گیا کہ یہ سیشن کینسل کرنے کو کہا جا رہا ہے، شاید یہ نہ ہو سکے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایسا آرٹس کونسل انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا۔ ایس ایل ایف انتظامیہ اس کے حق میں نہ تھی۔ ہم نے یعنی ایس ایل ایف ٹیم اور پینل ٹیم نے مل کر سیشن کو موڈیفائی کرنے کی، نرم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہماری خواہش تھی کہ سیشن کو بے ضرر بنا کر ہونے دیا جائے، اس لیے بھی کہ ملیر سے لیاری اور حب سے وندر تک سیکڑوں بلوچ اس سیشن کو سننے آئے ہوئے تھے۔ سیشن مؤخر ہونے کی صورت میں ان کے ردعمل کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ آرٹس کونسل انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور خاصی تاخیر کے بعد سیشن معطل ہونے کا حکم دے دیا۔

اب ایک طرف ایس ایل ایف کے دوستوں کی پریشانی تھی اور دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کے کسی ممکنہ ردعمل سے روکنا۔ ڈاکٹر مری نے ماہرنگ اور یوسف مستی خان کو علیحدہ بٹھا کر سچویشن بتائی۔ یوسف مستی خان صاحب کی طبیعت یوں بھی ناساز تھی، انہیں ہم نے اسی بہانے سے رخصت کیا۔ ماہرنگ خود بھی جذباتی تھی اور اس کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹس بھی۔ نوجوان چاہتے تھے یا تو یہیں بیٹھ کر کسی بھی کونے میں ہم اپنا سیشن کر لیں یا پریس کلب چلیں یا یہیں آرٹس کونسل کے گیٹ کے باہر بیٹھ جائیں۔

ہمارا خدشہ یہ تھا کہ یہاں ایسا کچھ بھی ہونے کی صورت میں معاملہ میڈیا میں آ جائے گا اور مخالفین خصوصاً اس کا چسکا لیں گے۔ اور ہمارے دوست اور ان کا ایونٹ مشکل میں پڑ جائے گا جو ہم کسی صورت نہیں چاہیں گے۔ یوں ڈاکٹر صاحب کی سربراہی میں ہم نوجوانوں کو بہانے سے یہاں سے نکال کر قریب پولو گراؤنڈ نامی پارک میں لے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو ڈھائی سو لوگوں کا اکٹھ جمع ہو گیا۔ ہم نے وہیں اپنا سیشن کر لیا، نوجوانوں کا کتھارسس بھی ہو گیا۔

مگر بات اب کہاں رک سکتی تھی۔ کئی نوجوانوں نے یہ سیشن لائیو چلایا۔ کسی نے فوٹو رکھے، کسی نے وڈیو اپ لوڈ کی، کسی نے اسٹیٹس لگایا۔ بلوچ ڈائسپورا میں آگ لگ چکی۔ سندھ میں آل ریڈی ہمارے دوستوں سے خائف مخالفین نے جی بھر کے انہیں رگیدنا شروع کر دیا۔ مگر کمال ہشیاری سے اصل محرکین کا نام کسی نے نہ لیا۔ بلوچ نوجوان بھی جذبات کی رو میں بہہ کر یہی احتجاج کرتے رہے۔ ہمارے دوستوں کا ایونٹ ابھی ابھی ختم ہوا ہے۔ یہ دوست اب تک اس کے انتظامی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف جاری غلیظ پروپیگنڈا مہم کا جواب اب ضروری ہو گیا ہے۔

اس معاملے چند باتیں ہماری طرف سے نہایت واضح ہونی چاہئیں:

1. سندھ لٹریچر فیسٹول بنیادی طور پر عوام دوست، قوم دوست اور بلوچ دوست ایونٹ ہے۔

2. لیاری لٹریچر فیسٹول نے اسی سے جنم لیا، اس لیے ہم اسے آج بھی اپنے گھر کا ایونٹ سمجھتے ہیں۔

3. بلوچ سیشن کے منسوخ کرنے کا فیصلہ ان ڈائریکٹلی مقتدر قوتوں اور ڈائریکٹلی آرٹس کونسل انتظامیہ کی طرف سے ہوا۔

4. آرٹس کونسل انتظامیہ جبر کی قوتوں کے سامنے جھک گئی اور بلوچ آواز کو دبانے میں حصہ دار بنی۔

5. ہمارا احتجاج جبر کی ان قوتوں کے خلاف ہو گا جنہیں بلوچ آواز سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے۔ ان کے خلاف بلوچ آواز پہلے بھی مستحکم رہی ہے، آئندہ بھی رہے گی۔

آخری بات یہ کہ بلوچ ابھی اتنا نادان نہیں کہ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان نہ کر سکے۔ دوستوں کے لیے آخری سانس تک ہمارا سینہ ڈھال اور دشمن کے سامنے سپر رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔