امر جلیل کی کہانی
تحریر: خالد ولید سیفی
دی بلوچستان پوسٹ
امر جلیل سندھی ادیب ہیں، میں نے کبھی اس کا کوئی افسانہ نہیں پڑھا ہے، ایک زمانے میں روزنامہ جنگ میں ان کی فکاہیہ و طنزیہ تحریریں پڑھتا رہا ہوں، سماجی مسائل پر اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں، صوفی منش اور اپنی دنیا میں مگن رہنے والے انسان ہیں، اس کی شخصیت کی کئی پرتیں اور کئی پہلو ہوں گے، سوچنے لکھنے، پڑھنے اور بولنے کا اپنا انداز ہوگا، جن سب سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ ہی واقف ہونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ایک ادیب کا وہی پہلو آشکار ہوتا ہے جو اظہار کے پیرائے میں آجاتا ہے، یہ بات مسلمہ ہے کہ امر صاحب کی تحریریں اپنے اندر بہت گہرائی سموئی ہوتی ہیں، انہیں سمجھنے کےلیے الفاظ کے ظاہری معنی سے بہت ساری غلط فہمیاں، اشکال، پیدا ہوجاتی ہیں، حتی کہ بعض تحاریر اشتعال کا سبب بن جاتی ہیں۔ جس طرح ان کی حالیہ منظر عام پر آنے والی تحریر جو ویڈیو میں پڑھی جارہی ہے، پر کچھ اشتعال پیدا ہوا ہے یا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس کہانی پر سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک بحث چڑھ گئی ہے، جسے آپ سیکولر و مذہبی نکتہ نگاہ کی بحث کہہ سکتے ہیں۔
اس بحث میں میرے لیے ایک امر باعث اطمینان ہے کہ مذہبی حلقوں نے ماضی کی روایات سے ہٹ کر جذباتی یا “آگ بگولہ” طرز کا ردعمل نہیں دیا ہے ( عام لوگوں کی بات نہیں کررہا ) بلکہ اس کہانی میں الفاظ کے چناؤ کو زیر بحث لایا گیا ہے، یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے اور مذہبی حلقوں کی جانب سے تحمل و برداشت کا خوبصورت نمونہ ہے۔
اس بحث میں دوسرا امر میرے لیے باعث حیرت و باعث تشویش ہے کہ ماضی میں “آگ بگولہ” کی روایات جسے ہمیشہ مذہبی حلقے کی شناخت بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے اب سیکولر حلقے کی شناخت بنتی جارہی ہے۔ امرجلیل کے معاملے میں جس ردعمل کا خدشہ مذہبی حلقے سے تھا وہ امر جلیل کے دفاع میں سیکولر حلقہ دے رہے ہیں۔ یعنی اگر میں امرجلیل کی تحریر سے اختلاف کروں تو دوسری طرف سے روایتی پن کے ذریعے اس اختلافی رائے پر طعن و تشنیع شروع کیا جاتا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ سندھ کی ادبی روایات پاکستان کے دیگر علاقوں سے مختلف ہیں، اس ضمن میں سچل سرمست، شاہ بھٹائی، شیخ ایاز و دیگر کی مثالیں دی جاتی ہیں اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سندھی ادب کا خمیر صوفی ازم سے اٹھا ہے اور صوفی ازم کے اظہار کے پیرائے وہ نہیں جو پنجاب، بلوچستان یا کے پی کے، کے ہیں۔امرجلیل کے اور بھی سندھی افسانے اس طرز کے ہیں جو سندھی میں ہونے کی وجہ سے عام لوگوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔
میں نے مذکورہ کہانی کا ترجمہ پڑھا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ امرجلیل کا مقصود نعوذ باللہ خدا پاک کی بے توقیری نہیں ہے وہ کچھ اور کہنا چاہ رہے ہیں، جسے سمجھنے کےلیے اسی سطح کی ذہنی استعداد درکار ہے جو خود امر صاحب کی ہے۔لیکن کیا کسی تحریر میں اہمیت صرف خیالات کی ہوتی ہے، الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہ جس طرح کے ہوں قابل گرفت نہیں ہوسکتے ہیں؟ کوئی تحریر ہو یا تقریر۔ وہ خیالات، الفاظ اور طرز گفتگو یا طرز تحریر پر مرکب ہے، اسے صرف یہ کہہ کر سند قبولیت نہیں دی جاسکتی ہے کہ اس کا مرکزی خیال خوبصورت ہے،یا وہ تحریر کے مرکزی خیال میں ہمارے ہی سماجی مسائل کا ذکر کررہا ہے۔
ادب معاشرے سے ہی جڑا ہوا ہے، آپ جس معاشرے سے جڑت رکھتے ہیں اسی معاشرے کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، انہی لوگوں کی تکالیف و مصائب کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جب آپ الفاظ کے چناؤ میں اس معاشرے کے احساسات کو نظر انداز کرکے ادب تخلیق کریں گے، تو گرفت پر سیخ پاء ہونے کی بجائے اس پر بحث کی گنجائش پیدا کی جائے، نہ کہ مکتبی طعنے اور روایتی پن کے ذریعے اختلاف رائے کو یکسر مسترد کیا جائے۔
معاشرے میں تقسیم ہے، یہی تقسیم معاشرے کی خوبصورتی ہے، سیکولر، لبرل، مذہبی، سوشلسٹ، فیمنزم اور بہت ساری فکری و نظریاتی تقسیم موجود ہے، یہ تقسیم ازل سے ہے، ابد تک رہے گی، ہم اس تقسیم کو ختم نہیں کرسکتے ہیں، دنیا کے تمام انسانوں کی سوچ کو ایک سمت پر مرکوز نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ یہ ممکن ہے، ہم مختلف سوچوں کے درمیان خوبصورتی سے گفتگو کرسکتے ہیں، ایک دوسرے کو سن سکتے ہیں، دلائل پر بات کرسکتے ہیں۔ برداشت اور تحمل سے جینے کا فن سیکھ سکتے ہیں۔تب جاکر مختلف مزاج و طبائع کے اس معاشرے میں رنگوں کی قوس قزح تخلیق کی جاسکے گی۔ بصورت دیگر ذہنی افلاس کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔