اسلم اور کریمہ کا بدلہ لیا جانا ابھی باقی ہے
تحریر: ریاست خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ نے تاریخ میں کبھی امن دیکھا ہی نہیں، بلوچ تاریخ خون آلود ہے، بلوچ دھرتی کے ہر ذرے سے خون کی بو آتی ہے ، یہاں ہمیشہ غیروں کی یلغار رہی ہے اور مقامی بلوچ ہمیشہ سے اپنے ہاتھوں میں کبھی تلوار تو کبھی تیرو کمان، کبھی پتھر تو کبھی خنجر اٹھائے مزاحمت کا نشان بنے رہے ہیں، اس کی ہزاروں سالہ تاریخ اپنے وطن کے دفاع کی تاریخ ہے، وہ ہمیشہ سے اپنے دفاع کی خاطر پہاڑوں پے مورچہ زن رہے، اور جب بھی دشمن نے گھس پیٹ کی ہے تو خون کی ندیاں بہی ہیں، یہاں وطن کے عشاق کا خون بھی بہا اور وطن عزیز پر نگاہ بد ڈالنے والے کا بھی۔
ان جنگوں نے جہاں بلوچ کو سرخ روکیا،وہیں اس کی تباہی بھی ہوئی لیکن بلوچ ڈھیٹ ہے، وہ ضدی ہے وہ مصلحت کی زبان میں بات ہی نہیں کرتا، اسے آزادی کیلئے مرنا باعث عزت و قابل فخر معلوم ہوتا ہے اور غلامی میں جینا ہتک آمیز اور گھٹیا۔
تبھی تو وہ آج بھی لڑ رہا ہے، وہ آج بھی ڈھیٹ ہے، وہ آج بھی خون بہاتا ہے اور اپنا خون بہتا دیکھ موچھوں کو تاؤ دیتا ہے کہ میں اپنے اجداد کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہوں۔
اس خون آلود دھرتی پر جب بچہ جنم لیتا ہے تو اس کی ماں اسے لوریاں سناتی ہے، وہ لوریاں جس میں تلوار ہاتھوں میں تھامے خون کی ہولی کھیلنے والے اس کے اجداد کو عظیم انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جو دشمن سے ایک ہی شرط پر صلح کرتے ہیں کہ جب دشمن ہاتھ جوڑ لے اور بلوچ دھرتی کے آخری پہاڑ سے بھی اُس پار چلا جائے۔
وہی بچہ جب چلنا سیکھ جاتا ہے تو اس کی دادی رات کو اسے اپنے پاس بٹھا کر اسے ڈھیٹ بنے رہنے کی تربیت دیتی ہے کہ تم اس زمین کے قرضدار ہو، اور باضیمر انسان اپنا قرض اسی دنیا میں چکا دیتے ہیں، دادی اسے بہادر بلوچوں کے قصے سناتی ہے جو اپنی عزت و وقار کی خاطر ہمیشہ مرنے مارنے پر اتاؤلے رہتے ہیں، دادی اسے بتاتی ہیں کہ دوران جنگ دشمن کے سامنے سر جھکانا اس کی شایانِ شان نہیں اگر دوران جنگ اس کے خون میں ابال نہ آیا تو وہ بلوچیت کے تعریف پے پورا اترنے سے قاصر رہتا ہے۔
بلوچ دھرتی خون آلود رہی ہے، بلوچ دھرتی آج بھی خون آلود ہے، آج بھی بلوچ مصلحت کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے،وہ آج بھی ڈھیٹ بنے رہنے کی روایت کو قائم کئے ہوئے ہے، تبھی تو کراچی کے کسی ہوٹل کے کمرے میں صبح کو نیند سے بیدار ہونےوالے تین بلوچ نوجوان یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس دن کے بعد کا سورج نہیں دیکھیں گے ہنس کر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور کچھ گھنٹوں بعد ایک ایک کر کے بندوق کی گولیاں اپنے حلق سے اتار دیتے ہیں، بلوچ آج بھی ڈھیٹ ہیں اور وہ آج بھی اپنا بہتا لہو دیکھ ہنس پڑتا ہے، وہ آج بھی پہڑوں پر مورچہ زن ہیں اور اتاؤلے ہیں کہ کب ان کو موقع ملے اور وہ اپنے اجداد کی روایات زندہ رکھیں۔
بلوچوں کی مائیں آج بھی اپنے بچوں کو ان کے پہاڑوں سے محبت سے سر شار لوریاں سناتی ہیں جو ان کے خون کو گرما دیتی ہیں اور انہیں اپنے پہاڑوں کی خاطر مرنے کیلئے متحرک کرتی ہیں، انہیں دشمن سے لڑنے اور مار دھاڑ پر اکساتی ہیں، تبھی تو ریحان جیسے کردار وجود میں آتے ہیں جس کی ماں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا بیٹا اس دن کے بعد کبھی واپس نہیں آئے گا اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے رخصت کرتی ہے اور بچھڑنے کے وقت یہ نصیحت کرتی ہے کہ جاؤ اور دشمن کیلئے عزاب بن جاؤ اپنے پہاڑوں، دریاؤں اور ریگستانوں پر قربان ہوجاؤ، اپنے اجداد کی روایات کو جلا بخش دو اور دشمن پر یہ واضح کر دو کہ جس زمین پر وہ آج قابض ہے وہاں ایک بہت ہی ضدی قسم کی مخلوق آباد ہے جو بہت ہی ڈھیٹ ہے، جسے زیر کیا جانا ممکن ہی نہیں کیونکہ وہ لڑتے ہوئے مر جانے پر فخر محسوس کرتی ہے۔
بلوچ اپنے ہمسایوں سے منفرد ہے ان سے الگ ہے اس لئے نہیں کہ خدا نے اس کے مزاج کو باقیوں سے الگ بنایا ہے بلکہ اس لئے کہ اس کی تاریخ مزاحمت کی تاریخ ہے، اس لئے کہ بلوچ مائیں اپنے بچوں کی تربیت میں قربان ہونے کے فلسفے کو اولیت دیتی ہیں، کیونکہ ان کی دادی رات کو اسے اپنے پاس بٹھا کر بالاچ گورگیج کے قصے سناتی ہے جو اپنی تمام عمر بدلے کی آگ میں جلتا ہے اور ایک دن اپنا انتقام لے کر بلوچ تاریخ میں خود بہادری کا ایک قصہ بن جاتا ہے۔
بلوچ کل بھی مصلحت کی زبان سمجھنے سے قاصر رہے گا کیونکہ کل کا بلوچ آج ڈھیٹ و ضدی بنے رہنے کی تربیت لے رہا ہے، دور کسی پہاڑی گدان میں کوئی بلوچ ماں اپنی لوریوں سے، کوئی دادی اپنے قصوں سے بلوچ بچوں کو بتا رہے ہونگے کہ اسلم کا بدلہ لیا جانا باقی ہے، کریمہ کی قبر کی مٹی ابھی تک خشک نہیں ہوئی ہے، وہ کل کے بلوچ کو مار دھاڈ کیلئے تیار کر رہے ہونگے،اپنا اور دشمن کا خون بہانے کیلئے اس کی تربیت ہو رہی ہوگی۔
اس بلوچ بچے کا باپ اس کو پہاڑوں کی چوٹیوں پر بٹھا کر اس بتا رہا ہوگا کہ یہ اسلم کے پہاڑ ہیں، یہ کریمہ کا وطن ہے جس پر کوئی اور قابض ہے، کریمہ و اسلم اپنے حصے کی جنگ لڑ چکے ہیں اور تمھارے حصے کی جنگ لڑا جانا باقی ہے، اس بلوچ بچے کا والد اسے بتا رہا ہوگا کہ ان پہاڑوں پر جو ہوا چل رہی ہے اس کے جھونکوں میں اسلم و کریمہ جیسوں کی لہو کی مہک سمائی ہوئی ہے، اسے محسوس کرو اور اپنے پھیپھڑوں میں بھر لو یہ تمھیں رات کو سونے نہیں دیگی اور تمھیں آنے والے سخت دنوں کیلئے تیار کرے گی۔
میرے بیٹے تمھیں ضدی بننا ہے، تمھیں اپنے اندر مصلحت کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑنی ہے، تمھیں تمھارے دشمن کو اپنے وطن کے آخری پہاڑ کے اُس پار دکھیلنا ہے۔
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں