اخترنامہ
پہلی قسط
تحریر: ایاز دوست
دی بلوچستان پوسٹ
سردار زادگان نے ہر دور میں بلوچ قومی سیاست کو اپنے مفادات کیلئے قربان کرتے رہے، تبدیلی پیدا واروں نے جذباتی نعروں کو غلط رنگ دے کر محلاتی سوچ کو دوام بخشا،علمی سیاست کی جڑ اُکھاڑ کر مفادات فردی بالادستی وغیرہ جمہوری اصولوں کے تحت ایک ساسی پارٹی کو خاندانی جتھے کی شکل دے کر قبضہ گریت کی عظیم روایت قائم کردی گئی۔
آج بلوچ بحثیت قوم اس خطے میں بدترین دور سے گذرہاہے، بلوچ مسئلہ حقوق سے بڑھ کر اپنے دائمی و مستقل وجود کو بچانا ہے، جوکہ شدید خطرات سے دوچار ہے، مگر بلوچستان کا سب بڑا قوم پرست پارٹی ہونے کے دعوے دار، مینگل سردار اپنی سردارانہ بالاتری کو برقرار رکھنے کیلئے کبھی جزباتی نعروں کا سہارہ لے کر سیاسی شعور و علم سے محروم بلوچوں کو اپنے ہمدرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کبھی اسلام آباد کی حکومت سے 6 نکات کی اصلیت چھپاکر اپنے لئے حکومتی مراعات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جنابِ سردار صاحب سے کوئی سوال کرنے کی جُرت کرے کہ آج آپ جس (PDM) کا حصّہ بن کر عمرانی حکومت کو روالپنڈی کی پیداوار قرار دے رہے ہیں کل آپ اسی عمران نیازی سے لاپتہ بلوچوں کے بازیابی کا خواہاں تھے۔
سیاسی منافقت اخلاقیات کو ردکرکے اپنا ماضی کی کردار سے ناآشنائی جیسی صورتحال کی وجوہات سے بڑھ کر ، وجودیت بھی ذاتی انسان کو مفاداتی دائرے میں ضمیر فروش بنادیتی ہے، حالات کی یکسانیت، پسماندگی بدحالی و قومی وسائل سے محروم ایک قوم اکیسویں صدی میں ایک جنگی صورتحال میں اپنے وجود و مستقبل کے فیصلے کیلئے بالادست و بالادستی کی نفسیات سے تیز و آزما ہوکر اپنے خون و کمان سے تاریخ رقم کررہی ہے، تو دوسری جانب فرضی، چی گویرا عوامی مزاج سے واقفیت کے بعد مشاہدہ و مشاورت کے بعد اپنے وجود کو محسوس خطرات کے پیش نظر تبدیلی پسندی کا لبادہ اوڑ کر، حالات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتی، رنگ بدلتی سیاسی بٹیر نئے محاز کے بجائے، فرضی کردار کے زریعے نئے پہلو کی تلاش میں نکلتا ہے اور موسیٰ بہادر خود کو زندہ رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔
کام تبدیلی، نظریہ و تنظیم کاری و قومی یکجائی میں کردار ادا کرنے کے بجائے یہ لوگ موقع پاکر بے وجہ تنقید غیرضروری مشورہ سمیت تبدیلی پسندوں کے لئے راستہ تنگ کرنے کا ہر حربہ استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اصل میں یہ واجائی ذہنیت کے مالک ہیں، اور واجہ کبھی مظلوم کا ہمدرد نہیں ہوسکتا۔
سرزمینی ساحل وسائل کا نعرہ بلند کرکےبلوچ وطن کے تحفظ کا قسم کھاتے ہیں، تو دوسری جانب بلوچ وطن کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کرکے فارمولے پر عمل پیرا محمود خان اچکزئی کا دائمی دوست بن کر سیاسی مفادات کے لئے قومی مفادات کا سودہ کیاجائے، ایک طرف اسلام آباد کی اسمبلی سے لے کر بلوچستان اسمبلی تک، الیکشن میں اپنا انتخابی مشور میں اس بات کو واضح طورپر شامل کیاگیا تھا کہ افغانستان مہاجرین بلوچ وطن کے لئے ناسور ہیں ، اور ان کی موجودگی میں مردم شماری سمیت ہر اس عمل کا بائیکاٹ کرے گی جس میں افغانوں کو شامل کیاجائے۔
مگر محمود خان سے یاری نبھانے کی خواہش مند سردار اعظم، کیا اس بات سے انکار کرسکتاہے؟ کہ محمودی پارٹی نے لاکھوں افغان مہاجرین کو بلوچ دھرتی پر شناختی کارڈ و لوکل ڈومسائل بنا کر بلا روک ٹوک جاری کروایا،کیا اس محمود خان سے یاری ہمارے مفاد میں ہے ؟
میں یہ تسلیم کرتاہوں کہ حالات کے مطابق سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی لانا وقت کی ضرورت ہوتی ہے، اور سیاستِ میدان میں عوام کے درمیان رہ جاتی ہے اور مفاہمت مزاکرات، دوستی و دشمنی حالات حاضرہ وقت حالات سیاست کے اہم جز ہیں۔
ان اصولوں کے تحت ہی سیاسی بیانیہ ترتیب دیاجاتاہے۔
مگر نظریء ضمیر و قومی مفادات کے نام پر ان کا سودہ کیا جائے، تو اس سیاست کو قوم دشمنی تصور نہ کیاجائے تو اور کیا؟
سیاست اندرونی و بیرونی پر عمل ہوتی اصول و ضوابط کے تحت چلتی ہے، مگر اس وقت کیا اس بات سے انکار کیاجاسکتاہے کہ بی این پی مینگل کا طریقہ عمل اندرونی طورپر غیرجمہوری ہے۔
پارٹی کا بنیادی ڈھانچہ نہ صرف خود ساختہ تربیتی ساخت ہے، بلکہ تنظیم کاری جمہوری اصول و ضوابط، الیکشن کا طریقہ فارم نامزدگی کونسلران کا چناؤ، یونٹ سازی، مرکزی کونسل سیشن آئین سازی کونسل مرکزی کمیٹی کے فیصلے یونٹ، زونل باڈی و طریقہ جنرل باڑی سمیت بہت سے اصول بنیادی جمہوریت و ایک جمہوری آرگنائزیشن کے تنظیمی باڑی کیخلاف ہے۔
اس کے وجوہات میں بتاتا ہوں، میرے خیال میں ایک سیاسی تنظیم کو آپ اُس وقت جمہوری کہہ سکتے ہو جوکہ تین اصولوں کی پاسداری کریں۔
نمبر (1) (مشترکہ لیڈرشپ)
جس کے تحت پارٹی قیادت مختلف اوقات میں تبدیل ہوتی رہتی ہے
مرکزی کونسل سیشن میں ہر کونسل کو یہ آذادی ہے جہ وہ کس کو ووٹ کرتی ہے، ہرکونسل کو یہ حق بھی فراہم کیاجاتاہے کہ وہ کسی بھی عہدے کیلئے اپنی قابلیت کی بنیاد پر فارم جمع کرسکے اور پارٹی کے مرکزی صدر کیخلاف الیکشن لڑنے کو اپنا جمہوری حق مانے اور پارٹی اصول اس کے طریقہ عمل کو سپورٹ کرے۔
مگر بدقسمتی سے اس اصول کی نہ صرف خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ آمرانہ نظریے کے حمایتی اس بات پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
کہ جی سردار صاحب کی ایک آنکھ دکھانے سے اس کیخلاف کھڑا ہونا دور اس کے حمایتی کیخلاف کوئی کھڑا ہونے کی جرائت نہیں کرسکتا۔
یہ عمل غیرجمہوری ہے کیونکہ ادارے اجتماعی مفادات کیلئے بنائے جاتے ہیں ، شخص بالادستی، سرداریت و نوابیت کے دائرہ عمل میں رہیں کہ قومی وجود کو شدید خطرات سے دوچار کیاجاسکتا ہے اس کے علاواہ کچھ نہیں۔
نمبر (2) ( مشترکہ فیصلے)
اس اصول کے تحت کی جمہوری تنظیم پر لازم ہے کہ وہ کسی اہم فیصلے کی صورت میں تنظیمی فلیٹ فارم کو زیراستعمال کر اکثریتی بنیادوں پر فیصلے دے۔
مگر یہاں یہ کام بھی یہ خلاف عمل ہے ۔
پارٹی کے اکثر فیصلے یا مینگل ہاؤس میں کیئے جاتے ہیں یاکہ خاران ہاؤس میں اس عمل کے علاواہ وڈھ کے محلات سے ہرسال ہر ہونے والے فردی آواز کو حاضرجناب کہہ کر اسی سے کام نمٹانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں