اخترنامہ (دوسری قسط) – ایاز دوست

199

اخترنامہ
دوسری قسط

تحریر: ایاز دوست

دی بلوچستان پوسٹ

سیاست کی بنیاد نظریات پر مبنی ہوتاہے اور نظریہ،عظیم فکری اصولوں کے تحت سرانجام دی جاتی ہے اور فکری ضوابط تبدیلی کے راستے کے لئے لیڈرشپ کو بنیادیں فراہم کرتی ہے، قوم پرستی و سیاست اسی دائرے میں اپنے عمل کو پروان چڑھاتی ہیں،سیاسی بیانیہ میدان کو اُس وقت متاثر کرتی ہے جب سیاسی حالات، نظریہ و کرداری بنیادیں ایک مقصد کے لئے سرگرم ہوں، مظلوم سماج میں عظیم لیڈر کے ذریعے ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوا جاتا ہے، قومی تحریک و حقوق کی جنگ، بالادستی کی سوچ کے ساتھ ٹکراؤ، وطن پرستی، تبدیلی کے آثار ثابت ہوتی ہیں۔

دنیا کے تمام بالادست خطوں میں مظلوم قوموں نے تحریکیں چلائی ہیں، ان تحریکوں میں سیاسی عمل، لیڈرشپ کی فرنٹ لائن میں موجودگی و مستقل مزاجانہ ردعمل نے دشمن کو شکست سے دوچار کرنے میں مظلوم قوموں کو مدد دی ہے۔

بلوچ بھی اس خطے کے ایک مظلوم کی حیثیت سے اپنے قومی وجود کو درپیش شدید خطرات کا سامنا کررہاہے، لیڈرشپ کی مثالی ناکامی بدکرداری جیسے سوچ کے مالک، بادشاہانہ فکریت والے، اسلام آباد کو بلوچ قوم کے مسائل حل کی نیت سے نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی نیت سے دیکھتے ہیں۔

عوامی پارٹی کی عدم موجودگی کے سبب سیاست کے موروثی آزمائشوں نے اپنے مفادات کے لئے سازشی جالیں بچھا رکھی ہیں، نعرہ، جذباتی تقریروں ورغلانے کی علامتوں کے ساتھ،سیاسی دکھاؤ کے مالک اپنے کاروبار کے لئے نہ صرف، سودا بازی کا سہارا لیتی ہے بلکہ قومی مفادات کا سودا کرنے سے نہیں ہچکچاتی، بالادست سے سود بھی وصول کرتے ہیں اور انہیں اپنی طرف سے دائمی وفاداری کا یقین دہانی بھی کراتے ہیں، ان بڑے کرداروں میں سے ایک سردار صاحب ہے، جو سیاست کے عالمی اصولوں کے تحت ہر طرح کی فنکاری میں نہ صرف مہارت رکھتے ہیں بلکہ حالات کے مطابق کس کے مانگ و معیار میں تبدیلی بھی لاتے ہیں؟

کبھی گرجتی ہے کبھی برستی ہے، کبھی موسمی تاب میں رنگ و روپ بدل کر خوشگواری کی موڈ میں راستہ تلاش کرتاہے تو کبھی جادوئی انداز میں سب کے دلوں پہ راج کرنے کی کوشش کرتاہے ، کبھی شکیہ انداز میں مخالف ہوتاہے ، تو کبھی مفاہمت و مذاکرات کی زبان میں لائحہ عمل تشکیل دیتاہے ، مہارت کی انتہا کو پہنچی ہے اسکا درد مندی بھی۔ سردار کے شکرگذاری و اطاعت میں کوئی اگر دعا خبر نہ کرے تو سردار کی بے حرمتی تصور ہوتا ہے۔ اس سردار وفا کو سلام یار مگر غیر کی سیاست کے وراثتی دور میں زندہ مثال ہے۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں