آفتاب کی کرنیں
تحریر: گُل ناز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چے گویرا نے آخری وقت کہاتھا گولی مارو بزدلو تم لوگ ایک انسان کو ختم کرسکتے ہو لیکن ایک نظریہ کو نہیں – ایک دانشور کا قول ہے کہ انسان خود عظیم نہیں ہوتا بلکہ اس کا کردار عظیم ہوتاہے۔
نہ میں کوئی لکھاری ہوں، نہ دانشور لیکن میں آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کچھ لکھنے کی کوشش کررہاہوں گوکہ آپ کے فلسفہ آزادی کو بیان کرنا کوئی مجھ جیسے بندے کی بس کی بات نہیں۔
آج جس شخص کا میں ذکر کرنے جارہاہوں ‘اُس کے نظریاتی مضبوطی استقلال اور مستقل مزاجی کو بیان کرنے کیلئے شاید میرے پاس الفاظ کم پڑجائیں’ ایک ایسا بہادر سپوت جس نے آخری وقت تک دشمن کو للکار کر کہاتھا کہ تم لوگ قاتل ڈاکو ، ہمارے گھروں میں گھسنے والے درندے اور چور ہو۔
اس عظیم شخص کا نام شہید آفتاب جاوید ہے جسے ہم جلال بھی کہتے تھے ‘
وہ آفتاب جس کی نظریہ چراگ کی طرح روشن ہے۔
وہ آفتاب جس نے درس بہادری اور شجاعت کی دی
وہ آفتاب جو جہد آزادی کیلئے شعور کی کرن پھیلاتا رہا۔
وہ آفتاب جس کا نام اس کی ماں نے رکھا اور وہ نام کرگیا۔
وہ آفتاب جس نے اپنی نوجوانی کو جدوجہد کیلئے قربان کردیا ‘ میری رہنمائی کرنے والے آفتاب بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں میں دن گزارنے والا آفتاب ‘گلناز اور سوب جان کا بہادر باپ آفتاب۔
شہید آفتاب جاوید ضلع آواران کے تحصیل مشکے کے وارڈ گورجک میں واجہ ماسٹر محمد فضل جاویدکے ہاں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے اور مڈل کی تعلیم پروار ھائی سکول سے حاصل کی مجھے آپ سے ملنے کا کئی بار موقع ملا آپ ایک قومی سوچ رکھنے والے رفیق اور مہربان دوست تھے ۔ جس وقت بلوچستان کے حالات آتش فشاں بن گئے اور نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کردیاگیاتھا تو آپ مشکے سے تعلق رکھنے والے دیگر دوستوں کے ساتھ بلوچ قومی تحریک میں شامل ہوئے ‘ تا وقت شہادت آپ جسارت ‘شجاعت اور دلیری کے ساتھ دشمن کے حربوں کا مقابلہ کرتے رہے ‘جس وقت دشمن نے مشکے میں لوٹ مار دھشت گردی کی بازار گرم کررکھی تھی تو اس وقت آپ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے والے بلوچوں کے گدانوں سے لیکر شہر کے ایوانوں تک شعور پھیلانے اور سیاسی پختگی پیدا کرنے کیلئے واجہ شہید ڈاکٹر منان جان کی سرکردگی میں سیاست میں حصہ لے کر جدوجہد کررہے تھے۔
شہید کو جدوجہد سے دستبردار کرنے کیلئے ریاستی اداروں نے شہید کے گھروں کو نذرآتش کردیا اور ساتھ ہی اپنے لوکل کاسہ لیسوں کے زریعہ پیش کش کردی کہ اگر آپ جدوجہد ترک کردینگے تو آپ کو نوکری اور سرکاری مراعات دی جائینگی سکون سے زندگی کریں۔ لیکن وہ ایک شمع آفتاب تھا اسے یہ کیسے گوارا ہوتا کہ اپنے نظریہ سے مکرجاتا آپ نے لگور دشمن کے پیام کے بدلے کہا میرامقصد شعور اور دانش پھیلانے کی جدوجہد ہے اگر اس میں میرے یا میرے خاندان کا خون کام آئے تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصورکرونگا اور آپ ثابت قدم بھی رہے۔
پہ درپے دشمن نے آپ کے گھر کو کئی مرتبہ لوٹا اور نذرآتش کردیا لیکن آپ مستقل مزاجی سے جدوجہد کرتے رہے ان تمام رکاوٹوں نے آپ کے حوصلے مزید بڑھادیئے ان تما مصیبتوں کاآپ خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رہے۔
ایک لازوال دوست اور اس کی یادیں آج بھی تاریخ کے اوراق میں آفتاب کی طرح روشن ہیں۔
جب آپ کے بھائی اور کزن کی شادی تھی اور وہ خوشیوں بھرا دن تھا یہ خوشی ہمارے بدتہذیب اور غیر مہذب دشمن کو گوارا نہیں ہوئی جب رات کے پہرے میں سب سونے کو چلے گئے وہ آدھی رات قریبا 2 بجے کے وقت تھا جب پاکستان آرمی کے دہشت گرد فوجیوں نے آپ کے پورے محلے کو گھیرے میں رکھا ہواتھا اور سینکڑوں کی تعداد میں آرمی کے اہلکار آپ کے محلے پر ریڈ کرچکے تھے’ جب آپ کو بشانہ سے باھر لائے تو آپ نے کہا ھم دھشتگرد نہیں بلکہ حق مانگنے والے لوگ ہیں اور غیرمہذب دشمن نے آپ کے ایک بازو وہیں لات مارکر توڑ دیا لیکن آپ نے اف تک نہیں کی اور دشمن کو کہا جو کچھ کرنا ہے میرے ساتھ کریں میرے ماں اور بہنوں پر تشدد نہ کریں۔ اور آپ دشمن کے فوجیوں کو بتاتے رہے کہ وہ دھشت گرد ہیں اور آپ جہدکار-
جب 21 اپریل 2015 کو دشمن نے آپ کے ہمراہ ‘ اعجاز جان ‘ شاھنواز اور باسط جان کو اپنے ساتھ لےگئے(نوٹ شہید باسط اور شاھنواز کی ایک دن پہلے شادی ہوئی تھی’ جب کہ اعجاز جان کی نکاح اگلے دن ہونی تھی) اسی شام دشمن نے ایک ڈرامہ رچار کر کہاتھا کہ آج کچھ لوگ فوج پر فائرنگ کرکے مقابلے میں مارےگئے ہیں حقیقت یہ تھی کہ وہ شہید کے ہمراہ چاروں کو اغواکرکے لےگئے تھے اور پھر مقابلہ کا ڈرامہ کردیا ‘ سفاک دشمن نے اسی شام ‘ آپ چاروں کے جسد خاکی کو مسخ کرکے تحصیل دار کے حوالے کیا لیکن ٖ’آفتاب کی کرنیں مسخ نہیں ہوئی اسی دن بھی روشنی دیتی رہی اور قیامت تک چمکتے رہینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔