21 فروری، مادر لینگویج ڈے – کائنات قادر

480

21 فروری، مادر لینگویج ڈے

تحریر: کائنات قادر

دی بلوچستان پوسٹ

21 فروری ان قوموں کیلئے انٹرنیشنل مادر لینگویج ڈے ہے، جنہیں ان کی مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ ہو، جنہیں معلوم ہو کہ مادری زبان ان کی پہچان ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے احساسات ، اپنے نظریات کو بآسانی اپنے ہم زبانوں کو سمجھا سکتے ہیں۔اس دن کی شروعات بنگلہ دیش کے کچھ نوجوانوں نے کی جب تاریخ میں پہلی بار اپنی مادری زبان کو تسلیم کرانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ 21 فروری ہمیں پھر سے یاد دلاتی ہے کہ ہاں ہم زندہ ہیں اور ہماری خود کی پہچان اور اہمیت ہے۔

مادری زبان کی اہمیت پر بہت سارے لکھاریوں نے لکھا، برطانوی نوبل انعام یافتہ شاعراور ڈرامہ نگار ہرولڈ پینٹر بھی اپنی کتاب میں مادری زبان سے محرومیت کے نتائج و انجام کا تذکرہ کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ رسول حمزہ توف اپنی کتاب میرا داغستان میں مادری زبان کی حیثیت کو یوں بیان کرتا ہے ” میرے نزدیک زبانیں آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور میں یہ نہیں چاہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک بڑے ستارے کا روپ لے لیں کیونکہ اس کیلئے تو سورج موجود ہے لیکن سورج کے وجود کے بعد بھی یہ ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ آسمان پر ستارے چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اس کا اپنا ستارہ ہو۔” رسول حمزہ توف کے مطابق ہر کسی کے پاس اپنی مادری زبان کا ہونا اور جاننا لازم و ملزوم ہے۔

ہر زبان کی اپنی سی اہمیت ہوتی ہے اور اپنی جگہ ۔ وہ اپنے کتاب داغستان میں ایک مصور کی داستان بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں شادی بیاہ کر کے اپنی زندگی گزارنے لگتا ہےلیکن اپنی ملک کو یاد بھی کرتا ہے جب رسول حمزہ انہیں واپس لوٹنے کا کہتے ہیں تو جواب آتا ہے کہ ممکن نہیں دوبارہ جانا لیکن جب رسول حمزہ مصور کے خاندان سے ملتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ماں ابھی بھی زندہ ہے اور بیٹے کی راہ تک رہی ہے شاید اس بےبس ماں نے ملک چھوڑنے کا قصور معاف کردیا ہو لیکن جب ماں یہ سن کر ماتم کرتی ہے کہ اس کے بیٹے نے اپنی ماں کی سیکھائی ہوئئ زبان کو بھلا دیا ہے اور اسی وقت اپنے بیٹے کو مردہ قرار دیتی ہے۔

ہم بولنا ہی اپنی مادری زبان کے ذریعے سیکھتے ہیں تو اس عظیم اور اہمیت کے حامل زبان کو کیسے بھلا سکتے ہیں اور کیسے اس کی قدردانی میں کمی کرسکتے ہیں ۔ اور کہیں میں نے یہ جملہ بھی پڑھا ہے کہ “مادری زبان پر اختیار سب سے بڑا اختیار ہے ” یہ یکجائی پیدا کرتا ہے ۔ جو قومیں اپنی مادری زبانوں میں پڑھتی لکھتی ہیں وہ یکجا ہوتی ہیں، ان میں وہ اپنے کلچر کو زیادہ فروغ دے پاتی ہیں۔ بقول رسول حمزہ توف کہ میں جو بھی کچھ کہنا چاہوں اپنی مادری زبان میں کہہ سکتا ہو ں اور مجھے احساسات اور افقار کی ترجمانی کیلئے کسی دوسرے زبان کی ضرورت نہیں۔”


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں