بلوچستان کے ضلع کیچ کے تحصیل مند سکنہ مبارک جات مسلم ولد حاجی یعقوب کو آٹھ سال قبل یعنی 2013 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
مسلم ولد حاجی یعقوب کی ہمشیرہ نے کہا کہ مسلم ہمارے گھر کے واحد سہارہ تھے اور ہم گذشتہ آٹھ سالوں سے اذیت سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ میں اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیپ کا حصہ بن جاتی لیکن وہاں جا نہیں سکتی، ہمارے گھر میں اب کوئی مرد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کو بازیاب کرکے ہمیں انصاف دیا جائے اگر میرا بھائی ریاست کا مجرم ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے۔
خیال رہے کہ اس وقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں میں نیشنل پریس کلب کے احاطے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین نے احتجاجی کمیپ قائم کی ہے اور وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
اس کے علاوہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل ترین علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ بھی اس وقت کراچی میں جاری ہے تاہم بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی لواحقین کے مطابق ہم مالی و دیگر مشکلات کی وجہ سے اسلام آباد، کوئٹہ یا کراچی جا نہیں سکتے ہیں۔
بلوچستان سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے کئی افراد سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہیں جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار ریاستی فورسز و خفیہ اداروں کو ٹہراتے ہیں۔
انسانی حقوق کے تنظیموں نے بھی بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ایچ ار سی پی کے گذشتہ سال جاری کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق لوگوں کو اٹھا کرغائب کرنے کا سلسہ جاری ہے، متاثرین کے اہلِ خانہ کے بقول، وہ عام طور پر حکام کو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے بارے میں بتانے سے ڈرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کا المناک پہلو یہ ہے کہ کئی علاقوں جیسے کہ ڈیرہ بگٹی اور آواران میں اب عورتیں بھی ‘ لاپتہ’ ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے واقعات نہ تورپورٹ ہورہے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ مرتب ہورہا ہے۔