سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج جاری ہے، احتجاج کو 4211 دن مکمل ہوگئے۔ ملیر سے سیاسی و سماجی کارکنان میر عبدالغفار بلوچ، امام بخش بلوچ، شبیر بلوچ، منیر احمد بلوچ، عقیل احمد بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی جس طرح تیز رفتار ٹیکنالوجی کا دور ہے اسی طرح لوگ بھی بہرے اور بے زبان ہوچکے ہیں جہاں لوگ خاموشی کیساتھ اپنی زندگی سے منسلک ہیں، ہمسایہ تو دور کی بات والدین، عزیز و اقارب کی دید بھی گویا نصیب کا قصہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی فورسز کی جانب سے اغواء کیئے جانیوالے لاپتہ افراد کے حوالے سے دنیا کو متوجہ کرنا ایک عظیم اقدام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سالِ نو کا آغاز بھی بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی صورت میں ہوا ہے۔ آج پاکستانی فورسز نے پنجگور سمیت دیگر علاقوں میں جارحیت کا آغاز کرکے بلوچ قوم کو پیغام دیا ہے کہ نیا سال آزاد قوموں کیلئے اہمیت رکھتی ہے۔ دوسری جانب بولان میں فوجی آپریشن کو چھ روز ہوچکے ہیں جہاں شکست خوردہ فورسز اپنا غصہ عام آبادیوں اور جنگلات پر نکال رہے ہیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ زندگی صرف شخصی خاندانی شے نہیں بلکہ یہ قومی اور انسانی فریضہ ہے اور اسی فریضہ انسانیت کی راہ میں آج وہ تشدد کی بھٹی میں زندگی اور موت کی زیست میں ہیں مگر ان کو زندانوں میں تشدد کے ذریعے شکست دینا ممکن نہیں ہے۔