سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج جاری ہے، احتجاج کو مجموعی طور پر 4212 دن مکمل ہوگئے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی، بلوچ متحدہ محاذ کے عزیز بلوچ، بشیر بلوچ، وہاب بلوچ، ایکٹوسٹ حوران بلوچ اور کراچی پریس کلب کے نومنتخب کابینہ صدر فاضل جمیلی،سیکرٹری جنرل، سیکرٹری رضوان بھٹی، سابق صدر کراچی پریس کلب امتیاز خان فاران،سینئر صحافی سعیدسربازی،عارف بلوچ، شاہد جتوئی، رفیق پٹیل،سعید جان بلوچ، سینئر صحافی نذیر لغاری نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کا کہنا تھا کہ ہماری قومی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر بلوچستان کے حقوق کی تحریک اب گراس روٹ لیول تک پہنچ کر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک منظم انداز میں معاشی عدم استحکام کے ذریعے معاملات کو اس نہج تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جواز پیدا کیا جائے کہ پاکستان بچائیں یا ایٹم بم؟ انہوں نے کہا کہ 73 سالوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کی بدحالی کے ذمہ دار سردار ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا پاکستان کو آئی ایم ایف کا مقروض انہی سرداروں نے کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ بی ایس او کی سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے قتل کے وہی لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے انہیں بلوچستان چھوڑنے پر مجبور کیا، وفاق کے خلاف نفرتوں میں کمی لانے کے لئے 1940ء کی قرارداد کو بنیاد بنا کر قومی سطح پر ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جام کمال اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا ہے، انہیں وزیراعلیٰ بنانے کے لئے راتوں رات نئی پارٹی بنا کر صوبے کو اس کے قبضے میں دیا گیا ہے یہ لوگ اب ریکوڈک بیچنے کی تیاری کررہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ جمہوری جدوجہد سے جام کمال اور ان کے گروپ سے بلوچستان کو چھٹکارا دلوائیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹی جب بنتی ہے تو انہیں کامیابی اس وقت مل سکتی ہے جب وہ وقت اور حالات کے مطابق حکمت عملی بناتے ہیں اور حکمت عملی کے تحت اپنے پروگرام کو آگے لے جاتے ہیں۔ سیاست مسائل کے حل کا نام ہے اور سیاست عوام کی خدمت کے لئے کیا جاتا ہے۔ حقیقی پارٹیاں صرف وہی ہوتے ہیں جو صرف عوام مفادات کے لئے کام کرتی ہیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ لوگ اکثر حالات کو نہ سمجھتے ہوئے دشمن کی چالوں میں آکر اپنی ہی ترقی خوشحالی کے لئے بر سرپیکار کارکنوں یا سیاسی تنظیموں کے خلاف پروپیگنڈے کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں حالانکہ جو وہ بیوقی کررہے ہوتے ہیں ان سے صرف اور صرف دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو اس طرح کے حرکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اچھے حکمت عملی بنانی ہوگی کیونکہ غلط فیصلے اور حکمت عملیاں ہر وقت نقصان کے باعث بنتے ہیں۔