پاکستانی نظام تعلیم اور بلوچ قوم
تحریر: جورکان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بچپن سے لیکر آج تک ہم سنتے آر ہے ہیں کہ تعلیم حاصل کرو، اچھی طرح سے پڑھ لو، تعلیم ہر انسان امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت سب کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے۔
تعلیم کسی قوم یا معاشرے کے لئے ترقی کی ضامن ہے۔ ہر عام و خاص انسان یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ تعلیم حاصل کرو۔ جتنا ممکن ہو اچھی طرح سے پڑھ لو۔
یہ باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن جب بات پاکستان اور اس کی نظامِ تعلیم کی آتی ہے( بدقسمتی سے جس میں ہم رہتے ہیں اور جس طرح کی نظامِ تعلیم ہمیں دی جارہی ہے) تو یہ بات ہر با شعور انسان کو پتہ ہے کہ یہ باتیں یہاں پر پوری نہیں اُترتیں، پورا اُترنا تو دور کی بات یہ باتیں تو بالکل اس کے برعکس ہیں۔
اگر آپ تاریخ کے پنّے پلٹ کر دیکھیں تو میرے خیال سے پاکستان بننے سے لیکر آج تک پاکستان میں نہ کوئی ماہر نفسیات، نہ فلسفی، نہ اچھا سائنسدان اور نہ ہی دیگر شعبوں میں کوئی ماہر نکلا ہے۔ اگر کوئی نکلا ہے تو انہوں نے اپنی تعلیم پاکستان بننے سے پہلے حاصل کی یا کسی بیرونی ملک کے جامعات میں حاصل کی۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی نظامِ تعلیم سوائے اپنے لوگوں کو گمراہ کرنے، لوگوں میں نفرت پھیلانے، اپنی سیاہ کرتوتوں کو چھپانے اور جھوٹی سبقیں سکھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تعلیم قوموں کی ترقی و زوال کی وجہ بنتی ہے اور ایک اور بات اکثر سننے میں آتا ہے کہ تعلیم خود سے اور دنیا سے آگاہ ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اسی تعلیم کو غلط استعمال کیا جائے تو تعلیم خود سے اور دنیا سے بیگانہ ہونے کا بھی ایک ذریعہ ہے تو میں آگے ان باتوں کو واضح کرنے کی کوشش کرونگا کہ تعلیم قوموں کی زوال کی وجہ کیوں بنتی ہے اور تعلیم کے ذریعے لوگ کس طرح خود سے اور دنیا سے بیگانہ ہوتے ہیں۔
پاکستانی نظامِ تعلیم سرسے لیکر پاؤں تک لوگوں کو ذہنی طور پر اپاہج بنا دیتی ہے۔
سب سے پہلے اسکول کی بات کرتے ہیں کہ جہاں پر بچے کی ذہنی نشونما ہوتی اور بچے کی تربیت بھی اسکول میں ہی ہوتی ہے پاکستان کے اسکولوں میں بچے کی ذہنی نشونما اور ذہنی تربیت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ اس کو درسی کتابوں سے لیکر اساتذہ پڑھاتے اور سکھاتے ہیں کہ ہندوؤں سے نفرت کرو اور سکھایا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج جب ہندوستان میں آیا تو آتے ہی ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر بے انتہا ظلم کیئے اور بچے کو بہت سے ایسے سفید جھوٹ پڑھا کر بچے کی سوچنے کی صلاحیت ختم کی جاتی ہے اور بچہ یہ رٹّا لگاتا ہے کہ ہندوؤں اور ہندوستانیوں سے نفرت کرنا ہے۔
اب ایک انسان ان بچوں سے کیا توقع رکھ سکتا ہے اور ان سے اپنی امیدیں کیسے وابستہ کر سکتا ہے کہ یہ بڑھے ہوکر قوم اور ملک کو سنھبال لیں گے جو خود کو نہیں سنھبال سکتے۔
یہ طریقہ کار صرف اسکولوں تک محدود نہیں کالجوں سے لیکر یونیورسٹیوں تک کا یہی حال ہے۔
جب کوئی طالب علم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے تو چاہے وہ کوئی بھی مضمون پڑھنے کیلئے جارہا ہوں کچھ پرائمری اور میٹرک کے مضمونیں دوبارہ اُس پہ مسلط کرکے پڑھائی جاتی ہیں مثلًا آپ نفسیات کے طالبعلم ہیں آپ کو جامعات میں ریاضی، اردو، عربی اور آج کل تو کہیں جامعات میں چائینیز بھی بلاوجہ پڑھائی جارہی ہے جن کو پڑھانے کی ضرورت ہی نہیں۔
ان مسلط کردہ مضمونوں کو پڑھتے پڑھتے طالبعلم اس قدر مصروف ہوتا ہے کہ اپنی منتخب کردہ مضمون کو اچھی طرح سے پڑھ ہی نہیں سکتا۔
ہر جامعات میں آپ کو کہیں طالبعلم ایسے ملیں گے جو تیسری یا چوتھی سیمسٹر میں ہیں لیکن ان کو اپنے مضمون کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا ۔
اور جامعات میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی طالبعلم تاریخ یا ملک کے آئین کے حوالے سے کوئی سوال پوچھتا ہے جو ملک کے خلاف ہو یا سچائی کو ظاہر کرتی ہو تو اساتذہ یہ سوچھ کر اس کو جواب نہیں دیتا کہ یہاں پر انٹلیجنس کے اہلکار بیٹھے ہیں کہیں میرے جان کو نقصان نہ پہنچائے۔
کہاں جاتا ہے کہ پاکستان کے ہر جامعہ کے ہر ڈپارٹمنٹ کے ہر ایک کلاس میں انٹلیجنس کے اہلکار ہوتے ہیں ۔
پاکستان کے کسی بھی جامعہ میں آپ کوئی بھی ایسا سوال نہیں پوچھ سکتے جو ملک کے حکمرانوں(فوج) کے خلاف ہو ۔
اگر کسی نے ایسی گستاخی کی تو اسے غائب کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اگر آپ مِسنگ پرسنز (missing persons) کا فہرست دیکھیں تو اس میں ہمیں بڑی تعداد میں اساتذہ اور طلباہ ملینگے ۔
تو ان سب باتوں سے آپ خود اندازہ لگالیں کہ ایسی نظامِ تعلیم جہاں پر سوال کرنے اور جواب دینے کی آذادی نہ ہوں کوئی طالبعلم اپنی شعبہ میں مہارت کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
یہاں پر ایک اور سوال اپنے آپ کھڑا ہو جاتا ہے کہ جو چیزیں کسی نے پہلے پڑھی ہے(مسلط کردہ مضمون) تو انہیں دوبارہ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے تو اس کا جواب میں اس طرح سے دینا چاہوں گا کہ یہاں پر یہ مضمون پڑھانے کا بنیادی مقصد طالب علم کی سوچنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے اور طالبعلم کو ان میں اس طرح الجھانا ہے کہ وہ ملک کے تاریخ اور اس کے آئین و قوانین کے بارے نہ سوچ پائیں۔
اور کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ ایک باشعور انسان فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ ہنسے یا روئے کہ کس طرح کی تعلیم انہیں دی جارہی ہے جب اساتذہ اپنے طالبعلموں کو ارتقاء اور ڈارون کے نظرئے کو پڑھاتے وقت کہتا ہے کہ یہ ساری باتیں جو میں پڑھارہا ہوں جھوٹ ہے انہیں صرف یاد کروں اور امتحان دیکر پاس ہوجاؤ ان باتوں پر یقین مت کرو
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو آپ جانتے ہو کہ جھوٹ ہیں پھر پڑھاتے کیوں ہو؟
یہان پر ایک اہم سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ایک ریاست اس قدر منحوس اور بے غیرت کیسے ہوسکتا ہے اور اپنے ہی ملک کے لوگوں اور آنے والے مستقبل کے ساتھ ایسی گنہاونی حرکتیں کیسے کر سکتا ہے تو اس کا جواب میں جناب برزکوہی کی وہ بات کہہ کر دیتاہوں کہ “پاکستان ایک ریاست نہیں بلکہ فوج کیلئے ایک کرایہ کا گھر ہے” اور ان فوجیوں کے لئے کمانے کا ذریعہ ہے فوج اور انٹلیجنس کے اہلکار عہدوں پہ فائز ہو کر ملک کو لوٹتے ہیں اور بیرونی ملک جاکر عیش و عشرت کی زندگی گزار لیتے ہیں باقی ملک کے لوگوں اور طالبعلموں کے ساتھ کیا ہورہا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
بس سچائی کو چھپاتے رہوں، سفید جھوٹ دکھاتے رہوں، اسلام کے نام پہ گمراہ کرتے رہوں اور ملک کو لوٹتے رہوں۔
یہی ایک نظام پاکستان بننے سے لیکر آج تک رائج ہے اور ان سب کا اور پاکستانی نظامِ تعلیم کا مارا طالب علم ” طالب علم سے زیادہ طالب رحم ہے۔
اب ان باتوں کو مدِنظر رکھ کر بلوچ قوم اور اس کے طالب علموں پہ آتے ہیں جو انہیں کرایہ داروں کہ غلام ہے اور اس بدترین تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کرہے ہیں۔
بلوچوں کو اپنے تاریخ سے دور کرنے کے لئے بلوچستان کی درسی کتابوں کو جھوٹ سے بھر دیا گیا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان نے پاکستان سے الحاق کیا تو کبھی کہا جاتا ہے بلوچستان، پاکستان کا پہلے سے حصہ تھا۔
ہمارے قومی جہدکار اور راجی رہشون بلوچ رہنما یوسف عزیز مگسی کو ایک مسلم لیگی بنا کے پیش کیا گیا ہے۔
اگر ہم بولان میڈیکل کالج (BMC) کی مثال لے جو پورے بلوچستان کا واحد میڈیکل کالج ہے۔ اگر آپ کسی طالبعلم جو بی ایم سی کا امیدوار ہو اس سے ملے اور بات کرے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ کس قدر ذہینی طور پر بیمار اور ڈسٹرب ہے۔ بی ایم سی میں کسی بھی ضلع کی اتنی محدود سیٹیں ہیں کہ طالبعلموں کی اکثریت کی سیٹ نہیں ہو پاتی۔
طالبعلم بی ایم سی کے لئے اس طرح دوڑ لگاتے ہیں کہ کوئی لائبریری میں 12 گھنٹے پڑھتا ہے تو کوئی 15گھنٹے۔ اس دوڈ میں طالبعلم سب کچھ بھول کر بس ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں لگ جاتے ہیں۔
اگر آپ کبھی دو بی ایم سی کے امیدواروں کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ کس حد تک ایک دوسرے سے نفرت اور آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں ان باتوں کا مقصد بی ایم سی کے امیدواروں کو نیچا دکھانا یا برا کہنا نہیں ہے بس اس نظامِ تعلیم کی حقیقت کو واضح کرنا ہے۔
اس دوڑ میں اور کچھ نہیں ہوتا بس ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور حسد پھیلتی ہے۔ اس نظام کے ذریعے بلوچ طالبعلموں کو خودغرض بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بلوچوں کو ان کے اصل مسئلے اور مقصد کی طرف راغب ہونے نہیں دیتی۔
اب ہم بلوچستان یونیورسٹی کی بات کرتے ہیں بلوچستان یونیورسٹی میں اگر آپ داخل ہوجاؤ تو آپ کو یہ یونیورسٹی کم اور فوجی چھاؤنی زیادہ لگے گا۔
بلوچستان ہونیورسٹی میں تین یا چار لوگوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر ڈسکسشن (discussion) کرنے کی اجازت نہیں ہے اور کسی طرح کی کوئی سیاسی بحث کی اجازت نہیں ہے (اگر آپ نے غلطی سے ایسا کیا تو فوجی بنا وقت ضائع کیئے آکر آپ کو لے جائینگے) اور کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں مائیکروفون بھی لگے ہوئے ہیں۔
جب ڈسکشن نہیں ہوگا طالبعلم ایک ساتھ بیٹھکر بحث نہیں کریں گے تو علم کیسے بانٹا جاہیگا اور نئی چیزیں سیکھنے کو کیسے ملیں گی۔
یونیورسٹی میں تو ہم سیکھنے جاتے ہیں جب ہمیں سیکھنے کی ہی اجازت نہ ہو تو یونیورسٹی کس لیے ہے ؟
اب ان سب درپیش مسئلوں کے باوجود بلوچ قوم کو کس طرح اپنی قومی شناخت برقرار رکھنی ہے اور کس طرح اپنے آپ کو ان کے سامنے منوانا ہے؟
تو کیا ان باتوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ آج کے بعد بلوچ طالبعلم اس طرح کی تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دے۔
تو میں اس فیصلے کی حمایت بالکل ہی نہیں کروں گا اور میں انہیں حالتوں کے تقاضوں کو دیکھ کر اپنے علم کے مطابق ان کے حل تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔
ان مسئلوں کا سب سے بہترین حل تو اس منحوس ریاست سے چھٹکارا پاکر آزادی حاصل کرنا ہے لیکن اس کے لئے ہوسکتا ہے کہیں سال اور عرصے لگ جائیں۔
موجودہ صورتحال کو دیکھ کر میں بلوچ طلبہ و طالبات سے بس یہی التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنی اسکول،کالج اور یونیورسٹی کے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی خود کی تعلیم مثلًا اپنی مدد آپ کے تحت اپنے معاشرے اور اپنے شعبوں کے مطابق کتابیں پڑھیں۔ دنیا میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں انہیں پڑھے
اپنے ذہین میں یہ بات واضح کردیں کہ پاکستانی نظامِ تعلیم اور تعلیمی اداروں سے وہ علم و تعلیم حاصل نہیں ہونے والا جو ہم حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
یہاں کے تعلیمی ادارے صرف اور صرف پیسے کمانے اور طالب علموں کو گمراہ کرنے کے ادارے بن چکے ہیں۔
اور آخر میں، میں استاد صبا دشتیاری کی وہی بات کہوں گا کہ” پاکستانی نظامِ تعلیم انسان کو ذہنی طور پر نامرد بنادیتی ہے۔
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں