‘پاکستانی جمہوریت’ سے جُڑی امیدیں
تحریر: دیدگ نُتکانی
دی بلوچستان پوسٹ
نوآبادکار جب بھی کسی زمین پہ قدم رکھتا ہے سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کی نفسیات جانتا ہے کہ یہاں پہ کونسے ہتھکنڈے استعمال کرکے لوٹ مار کرنی ہے، پھر اپنے قبضے کو دوام بخشنے کیلئے طرح طرح کے اخلاقی جواز بھی گھڑتا ہے کہ کل کو کوئی اسکے قبضے کے خلاف سوال کھڑا نہ کرے. کہیں وہ ترقی کا نام دیتا ہے کہیں وہ مذہبی لالچ دے کے اُسے تبلیغ کا نام دیتا ہے اور کہیں کاروبار کے سلسلے میں آتا ہے اور کئی دہائیاں لوٹ مار کو برقرار رکھتا ہے. اس حوالے سے کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ اس نے کیسے مذہب کو استعمال کر کے افریقیوں کی ذہن سازی کی. جب پہلی بار افریقہ گیا تو انکے ہاتھوں میں بائبل تھی اور مقامی لوگوں کے پاس زمینیں لیکن وقت پلٹا ابھی کچھ سال ہی گزرے تھے کے جب انھوں نے آنکھیں کھولیں تو مقامیوں کے ہاتھوں میں بائبل اور انکے پاس زمینیں تھی. اسی طرح چیکوسلوواکیا میں بھی ایک نعرہ مشہور تھا کہ
“kill a Communist for Jesus Christ”.
کیسے ایک معاشی نظام کو مذہب کے ساتھ گڈمڈ کیا گیا.
ہم زیادہ دور نہیں جاتے انگلستان جس طرح برصغیر میں کاروبار کے سلسلے میں آتا ہے اور سو سال تک لوٹ مار جاری رکھتا ہے اور جانے کے بعد بھی اسکے خطے پہ کتنے اثرات ہیں سب کے سامنے ہیں.
کامیاب قومیں وہی ہیں جو تاریخ سے سیکھتی ہیں جو دوسری قوموں کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں. اس حوالے سے بلوچ ہونے کے ناطے ہمیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ آیا ہم بھی کالونائزڈ ہیں یا نہیں, وہ تمام پالیسیاں جو ماضی میں نوآبادکار استعمال کرتا آرہا ہے کیا ہم پہ بھی وہی پالیسیاں ریاست پاکستان کی طرف سے لاگو کی گئی ہیں یا نہیں. سب سے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم کون ہیں ہماری تاریخ کیا ہے ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے کیونکہ جب تک مسئلے کا تعین نہیں ہو سکے گا پھر اسکو حل کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہونگی.
جب بھی قومی حوالے سے کوئی مسئلہ عروج پکڑتا ہے اسی وقت قومی حلقوں میں بحث شروع ہو جاتی ہے. کوئی اس مسئلے کی اصل وجہ مسنگ پرسنز بتاتے ہیں۔
اگر مسئلہ مسنگ پرسنز ہی مسئلہ ہے، تو وہ کونسی بات تھی جس کیلئے اتنے جوان مسنگ ہوئے ؟
کسی کے ہاں اصل مسئلہ “سردار” ہے، کوئی اس بات پہ زور دیتے ہوئے نہیں تھکتا کہ بلوچوں کے پاس اب واحد راستہ پارلیمنٹ ہی ہے جہاں وہ تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور کوئی اس بات پہ بضد ہے کہ موجودہ کھٹ پتلی حکومت ختم ہوگی تو کوئی جمہوری پارٹی اقتدار میں آکے سارے مسائل حل کریگی.کبھی ہم مریم نواز کے بلوچ طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی سے خوش ہوجاتے ہیں کبھی اسکے اسلام آباد میں مسنگ پرسنز کیمپ آنے پہ اپنے تمام دکھ درد بھول جاتے ہیں کبھی ہمیں ایسا لگتا ہے پاکستانی سیاست میں بھٹو واحد جمہوری لیڈر گزرا ہے جب کہ اس کے اپنے دور میں بلوچوں پر ہونے والے ظلم, زیادتیاں اور آپریشنز ہم بھول جاتے ہیں تو کبھی
زرداری کو “مزاحمت” کا استعارا سمجھتے ہیں جب کہ اس کے اپنے دور میں ہیلی کاپٹروں سے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں. گویا ابھی بھی کچھ محب وطن پاکستانی ہمیں “پاکستانی جمہوریت” کے ثمرات گنواتے ہیں جنکی اپنی تاریخ کے ستر سالوں میں پچاس سال فوجی آمریت میں گزرے ہیں.
اب جب واضح طور پہ یہ بات سامنے ہے کہ 11 اگست 1947 سے لے کر 27 مارچ 1948 تک بلوچستان ایک الگ ریاست کا وجود رکھتا تھا جس کی اپنی ایک خودمختیار حیثیت تھی جسکا اپنا آئین ,قانون اور جھنڈا تھا جسکی اپنی اسمبلیاں(ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں) تھیں جنہوں نے واضح طور پر ریاست قلات کو ایک آزاد مملکت کے طور پہ ووٹ دیا تھا. لیکن دس مہینے آذاد رہنے والے ملک میں فوجیں اتاریں گئیں اور ریاستی دہشتگردی کے زریعے قبضہ کی گیا, پھر بلوچ کونسی جمہوریت پہ یقین رکھیں ؟
اور پھر ہم سے گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں , تُو بھی تو دلدار نہیں
جب نواب نوروز اور انکے ساتھی اس قابض ریاست کے خلاف برسرِپیکار ہوئے اور پہاڑوں پہ مزاحمت شروع کی تب انھیں مذہبی کاڑد کھیل کر پھنسایا گیا یعنی قرآن سر پہ رکھ کر یقین دیہائی کرائی گئی کہ ریاست بلوچوں کے سب حقوق ماننے کو تیار ہے لیکن وہاں بھی دھوکہ کیا گیا, نواب کے ساتھیوں کو غداری کے الزام میں پھانسیاں دیں گئیں اور بابو کی ساری زندگی کال کوٹھری میں گزری اور وفات بھی جیل میں ہوئی.
ماضی کی غلطیاں سامنے تھیں لیکن پھر بھی بلوچستان کے نمائندگان کی طرف سے ایک بار پھر ریاست کے ساتھ جڑنے اور اسکو ایک اور موقع دینے کیلئے 1971 میں NAP کی حکومت بنی جس میں بلوچستان کی اعلی قیادت نے شرکت کی لیکن بلوچستان اسمبلی کو 9 ماہ کا قلیل عرصہ ہی گزرا تھا کہ اسلام آباد میں موجود عراقی کونسل خانے میں اسلحہ رکھنے کے جرم میں بھٹو کی طرف سے حکومت کو گرایا جاتا ہے اور نواب مری, سردار عطاءاللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کو گرفتار کیا گیا اور باقی لیڈران پر کیسز بنائے گئے. یہ بھی “پاکستانی جمہوریت” سے امید لگانے کی ایک کڑی تھی.
سب سے آخر میں ایک بلوچ نواب جو ریاست کے بننے سے لے کر مختلف ادوار میں ریاست کے شانہ بشانہ رہے اور کئی بار حکومتوں کا حصہ رہے. 1973 میں کوہلو میں فوجی آپریشن ہونے کے نتیجے میں ہزاروں مری بلوچ شہید ہوئے, کئی بستیاں نظرِ آتش ہوئیں عورتوں کو اٹھا کے لے گئے اور جنسی درندگی کا نشانہ بنایا, عین اُسی وقت تخت پر بیٹھنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو، اکبر بگٹی اور جنرل ٹکا تھے. ان سب ظلم و زیادتیوں کے باوجود بھی وہ اپنے عہدے سے دستبردار نہیں ہوئے اور ریاست کے ساتھ وفاداری دکھاتے رہے لیکن آخر کار تاریخ نے یہ بھی لکھا کہ اُسی ریاست کے وفادار بلوچ نواب کی جب آنکھیں کھلیں اور اسنے اپنا سچ پہچانا, بلوچستان کے باسیوں کے حق حقوق اور خودمختیاری کی بات کی پھر اس نواب کو بھی آخرکار مجبورا وہی آخری راستہ اختیار کرنا پڑا, اسے بھی آخر کار اپنی غلطی کا احساس ہوا جو ساری زندگی اسنے ریاست کے ساتھ وفاداری کی صورت میں دکھائی تھی. 26 اگست 2006 کا دن جب نواب بگٹی کو اسکے باقی گوریلہ ساتھیوں کے ساتھ آپریشن میں وطن سے محبت کے جرم میں شہید کیا جاتا ہے. وہ اکیلا پہاڑوں میں دفن نہیں ہوتا بلکہ بلوچستان میں موجود جمہوری اور آئینی سیاست کو بھی اپنے ساتھ دفن کر کے جاتا ہے.
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں