سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4217 دن مکمل ہوگئے۔ وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے رہنماء سورٹھ لوہار اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنا انتہائی دشوار ہے، یہاں بلوچ سیاسی کارکنوں، طلباء، سول سوسائٹی اراکین کے ساتھ اسٹبلشمنٹ نے جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ ناقابل برداشت عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانا جرم سجھا جاتا ہے جس کی سزا گردن زنی قرار دی جاچکی ہے۔ پاکستانی میں انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہے اس میں بلوچستان سرفہرست ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا بلوچوں سے لیکر سندھی، اردو اسپیکنگ، شیعہ، ہزارہ، پشتون سمیت دیگر اقوام اور کمیونٹیز کو مشترکہ طور پر ناانصافیوں کیخلاف آواز اٹھانا چاہیے۔ مشترکہ طور پر بلند کی جانے والی آواز ہی موثر ثابت ہوگی۔
ماما قدیر نے کہا کہ منظور پشتین کے بلوچ قوم کیساتھ مشترکہ جدوجہد کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایک ہی ریاستی پالیسی کے شکار اقوام کو ملکر اپنے پیاروں کی بازیابی سمیت دیگر مسائل پر آواز اٹھانی چاہیے۔