منظور پشتین کا نعرہ – محمد خان داؤد

184

منظور پشتین کا نعرہ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

میڈیا اس بات پر بضد ہے کہ اب اس کی آواز میں دم نہیں پر خلق اب بھی اس کی آواز کو ویسے ہی سنتی ہے جیسے تب سنتی تھی جب اس نے مخصوص لہجے میں اک نیا نعرہ دیا تھا جو نعرے سے زیادہ دکھ بھری شکایت تھی کہ ”دا خہ دول ازادی دا؟“ ”یہ کیسی آزادی ہے؟“

ایسا نہیں تھا کہ ان مخصوص حالات میں بس یہ ایک ہی شکایتی نعرہ تخلیق ہو پایا؟ جب پہاڑوں کے بیٹے نقیب کو کراچی کے مضافات میں ایک پویس والے نے ماورائے عدالت قتل کیا تو اس وقت اس سے بھی سخت نعرے تخلیق کیے گئے اور ان نعروں میں نئی روح تھی بلکل”کُن فیکون“ کی ماند! وہ نعرے وزیرستان سے بلند ہوئے اور کراچی سے ہو تے ہوئے ژوب تک پہنچے وہ نعرے شاندار تھے کسی گیت کی مانند وہ نئے تھے۔ کسی صحیفے کی مانند وہ نعرے بھولی بسری کتابیں نہ تھیں، پر وہ نعرے ایسے منشور تھے جس جس نے بھی سنے وہ ان کی کشش سے رُک نہ پایا۔

وہ نعرے نڈر انسانوں کی طرف سے مظلوم قوم کوتحفہ تھے۔ایسا تحفہ جیسے کوئی سرمچار جاتے جاتے کسی کو اپنی بندوق دے جائے!وہ نعرے بھی بندوق کی مانند تھے۔تخلیق تو روح میں ہو تے تھے۔نکلتے تو حلق سے تھے پر ان کا اثر کسی بندوق سے کم نہ تھا وہ نعرے جہاں تک جاتے تھے اپنا اثر چھوڑ جا تے تھے۔یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ راؤ انوار کو روپوش ہونا پڑا۔ یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ بلڈر آئیکون نے آکے میڈیا میں یہ وضاحت دے کہ”چھپے ہوئے راؤ انوار کو خود ہی تلاشو!یہ میرے پاس نہیں“ یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ سندھ کے موسٹ سئینر پولیس افسران راؤ انوار کی تلاش میں جُت گئے۔یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ اس وقت کا چیف جسٹس نقیب کے کیس کو سیریس لے رہا تھا یہ بعد کی بات ہے کہ انصاف نہ ہوا۔یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ آرمی چیف نقیب کے والد سے ملا اور نقیب کی ایک بیٹی چیف کے ایک گھٹنے پر بیٹھی تھی اور دوسری دوسری گھٹنے پر! یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ آئی ایس پی آر کا ترجمان سوشل میڈیا کے اسکرین شارٹ لیکر پریس کانفرنس میں دکھاتا کہ کون سا صحافی کس ملک کے پے رول پر ہے؟ یہ ان نعروں کا اثر تھا کہ پی ٹی ایم جنوبی وزیرستان سے چلی اور پو رے ملک میں پھیل گئی!

یہ ان نعروں کا ہی اثر تھا کہ کبھی بندوق بردار کہتے کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور کبھی وہ انہیں کہتے کہ یہ ایجنٹ ہیں۔ ان نعروں میں آخر ایسا کیا تھا کہ جس کے بھی کانوں میں …


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں