مغربی بلوچستان کے شہر سراوان میں گذشتہ دنوں گولڈ سمڈ لائن پر فائرنگ سے تیل کا کاروبار کرنے والے کئی افراد کے جانبحق ہونے کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے، واقعے کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
مظاہروں کے دوران فائرنگ کے واقعے میں مزید تین افراد کے جانبحق ہونے سمیت متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اطلاعات کے ساراوان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جارے ہیں اس دوران سرکاری دفاتر اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے سمیت فورسز اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
زاہدان کے صوبائی گورنر کے مطابق چھوٹے ہتھیاروں اور گرنیڈ لانچروں سے مسلح افراد نے قلعہ بد پولیس اسٹیشن کو قبضے میں لے لیا ہے۔
ساراوان میں حالات کو قابو کرنے کیلئے فورسز کی بھاری نفری پہنچ چکی ہے تاہم بڑے پیمانے پر مظاہرے قابو نہیں کیے جاسکے ہیں۔ دوسری جانب واقعے میں جانبحق افراد کی نماز جنازہ مختلف علاقوں کی ادا کی گئی جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق تیل لے جانے والے بلوچ افراد پر فائرنگ اس وقت ہوئی جب اسلامی انقلابی گارڈ کور کے کمانڈر نے تیل لے جانے والے افراد کے لیے ’رزاق منصوبے‘ کا اعلان کیا۔
اس نئے منصوبے کے تحت سرحدی کراسنگ پر ایندھن کے سٹیشن قائم کیے جائیں گے اور پاکستان کو ایندھن کی فروخت کو باضابطہ شکل دی جائے گی۔ رزاق منصوبے سے صرف سرحد سے 20 کلومیٹر کے فاصلے میں رہنے والے سرحدی باشندے ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔
ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان بلوچ اکثریتی علاقہ ہے، جسے کچھ عرصہ قبل ایرانی حکومت نے چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس پر اطلاعات کے مطابق ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں کیا گیا۔