لوگ گمشدہ کیوں کیے جاتے ہیں؟
تحریر: ریاض احمد، کراچی یونیورسٹی
دی بلوچستان پوسٹ
جب کسی ملک میں ریاستی ادارے گرفتاریاں کرکے عدالت میں پیش نہیں کرتے تو یہ مروجہ سرمایہ داری کے قوانین کی ناکامی کا اعتراف ہوتا ہے۔انسانی زندگی، اسکی آزادی کی ضمانت آئین دیتا ہے۔ یہ دہشت گرد مخالف قوانین بنا کر کریں یا اس کے بغیر دونوں صورتوں میں گمشدگیاں آئینی نظام کی ناکامی قرار پاتی ہیں۔ عام حالات میں جرم کی تفتیش، سزا کے طریقہ کار کو استعمال کر کے ریاست کی پولیس، عدالتیں اور بیوروکریسی،اشرافیہ کی بالا دستی کو برقرار رکھتے ہیں۔ جب گمشدگیاں، ٹارچر اور ماورائے عدالت قتل ہوں تو یہ بالادستی برقرار رکھنے کی ایسی کوشش ہوتی ہے، جس کا اخلاقی جواز موجود نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی بھی ریاست میں سیاسی و عسکری باغیوں کی سرکوبی کا عمل نہ تو اچانک شروع ہوتا ہے اور نہ ہی یہ اچانک ختم ہوتا ہے۔ ہاں حالات ان کی ابتداء اور آخرت کے اشارے ضرور دیتے ہیں۔
گمشدہ کرنے کا عمل تاریخی طور پر ۲۰ویں صدی میں ایسے ممالک میں زیادہ متشدد انداز میں اُبھرا جہاں بالادست اشرافیہ کو اقتدار یا وسائل پر قبضہ رکھنے میں عوامی حمایت ختم ہونے لگی۔ عوامی حمایت حاصل کرنے کے طریقوں میں الیکشن، پارلیمان، قانون سازیاں، مراعات ہیں۔ لیکن جب یہ بھی وہ اخلاقی و سماجی جواز نہیں دے پائیں تو کیا کریں؟ گمشدہ افراد کی بازیابی کی ہر تحریک یہی سوال اٹھا کر جمہوریت کا پردہ چاک کر دیتی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے کہ جہاں پڑھے لکھے، دانشور، نقاد، ادیب، شاعروں کو قلم اٹھانا ہوتا ہے، آواز بلند کرنی ہوتی ہے۔
ناہموار ترقی بے شمار پرتوں کو محروم کرتی ہے۔ ہر میگا پروجیکٹ،سامراجی مداخلت یہی ناہمواری لاتی ہے۔ گمشدگی کے خلاف آواز بے روزگاری اور قبضہ سے جڑ کر جب اٹھتی ہے تو یہ کئی سالوں تک عالمی فورمز پر بھی حکومتوں کے قانونی جواز پر سوال اٹھاتی رہتی ہے۔ مارکسسٹ دانشور انتونیو گرامچی کہتا ہے کہ ریاست جبر کی طاقت اور پارلیمان و جمہوری ادارے رضامندی یعنی مراعات دلوا کر مشترکہ حکومت کرتے ہیں۔ گمشدگیاں، فوجی آپریشنز پارلیمانی اداروں کو عوام سے رضامندی حاصل کرنے کا جواز ختم کردیتے ہیں۔
پاکستانی ریاست علاقائی قوتوں اور سامراجی قوتوں کی پیش رفت سے دوچار ہے۔ جیوپولیٹیکل تبدیلیاں اِس ریاست کو بھی ایڈجسٹ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مذہب کے نام پر قائم یہ ریاست اپنی اجتماعیت کے لیے ہر دم جواز کی متلاشی ہے۔ جواز ،جو اس کے وجود پر اٹھنے والے سوالات کو کم کر دے۔ ووٹ کو عزت دو ایک جمہوری نعرہ ہے، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے یہ ایک مذہبی نعرہ ہے، ہماری شناخت سندھی، بلوچ، پختون نہیں یہ ایک قوم پرستانہ نعرہ ہے۔ ایسے ہی نعروں کی گونج میں امریکہ، سعودیہ، ایران اور اب چین سے ڈالر اور ترقیاتی پروجیکٹس آتے ہیں۔ یہ پروجیکٹس غربت، بے روزگاری، تعلیم و صحت کے فقدان کے ساتھ ساتھ چھوٹے کاروباری پرت کے لیے بھی بہت عذاب بنتے ہیں۔ سرمایہ سے ترقی میگا پروجیکٹس جیسے سی پیک یا بجلی کے نجی پاور پلانٹس یا قومی دفاع کے لیے تکنیکی مہارت سے ترقی ہے۔ اِن منصوبوں کے بدلے مقامی سرمایہ دار کو سانس لینے کا یعنی منافع بنانے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ ترقی ناہموار ہے۔یہی ناہمواری حق خودارادیت سے لے کر علحیدگی پسندی کو ناگزیر بنا دیتی ہے۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو ریاست کے مروجہ قوانین کے زریعہ ان معمولی شورشوں کو روکنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ریاست مخالف بیانیہ محرومیوں کے لبادہ میں ابھرتا ہے۔کمزور ریاست کی پست قامت اشرافیہ اور اسکی فوجی و سویلین بیوروکریسی کو اپنا وجود خطرے میں نظر آتا ہے۔ سامراجی منصوبے ڈوبنے لگتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ میں خلفشار پیدا ہونے لگتا ہے ۔ یوں مروجہ قوانین کو ایک طرف کر کے دہشت گرد مخالف ایکٹ، ملٹری ان ایڈ آف سویلین اتھارٹی، نوے دن کی ماورائے عدالت حراست، ٹارچر کے طریقوں کو قانونی جواز سے لے کر اقتدار تک فوج کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ایک بار مروجہ قوانین کی حد پار کر لی جائے تو پھر یہ سجھائی دینا آسان نہیں رہتا ہے کہ کب واپس لوٹا جائے۔ اور یہی وجہ ہے کہ گمشدگیوں کا سلسلہ پاکستان میں ۲۰۰۴ سے شروع ہوا۔ بلوچستان سے پختونخوا، کراچی ، سندھ اور پنجاب کے کئی اضلاع میں پھیلتا چلا گیا اور اب اسلام آباد تک میں یہی ہو رہا ہے۔ لیکن سب کچھ ایک لکیر میں نہیں ہو رہا۔ بہت اتار چڑھائو بھی ہے۔ مزاحمت، احتجاج بھی۔ ان سب کا اظہار پہلے سیاست اور پھر ریاستی اقدامات میں ہوتا ہے۔ یہ بڑا پیچیدہ عمل ہے۔
عمران خان کی حکومت سامراجی پروجیکٹوں، افغانستان پر جنگ، ڈرون حملوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بیانیہ کے طویل دور کے بعد ابھری ۔ البتہ جہاں یہ از خود ایک نیم فوجی حکومت کی شکل اختیار کر گئی وہاں عمومی اظہار رائے کی آزادی کی اسپیس سرے سے ختم ہو گئی ۔معمولی ٹویٹ پر عام شہری اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔ ریاستی اداروں کی دخل در معقولات میں بہت شدت سے اضافہ ہوا۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ پروجیکٹ بدلے۔ چین پیچھے اور آئی ایم ایف آگے۔ حملے بھی ختم ہوئے اور جبری گمشدگیوں کی صورتحال میں تبدیلی آ گئی۔ اب اسلام آباد میں صحافی، ناقد اور سیاسی کارکنان تک گمشدہ ہونے لگے۔ مگر یہ شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کی طرح شارٹ ٹرم گمشددیاں ہوتی ہیں ۔ان میں اغواء ہونے والے کو چند گھنٹے یا چند روز بعد کسی کیس میں مقدمہ کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اہل تشیع ہوں یا اہل بلوچ یا اہل سندھ ان سب میں نئے گمشدہ کی تعداد کم ہو گئی۔ ایک اچھی خاصی تعداد رہا ہو کر لوٹی یا اسے بازیاب کر کے مقدمات قائم کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
بلاشبہ گمشدہ افراد کے لیے سرگرم تحریکوں کا اس صورتحال کے بدلنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔تحریک انصاف کا کتنا ہے یہ اسکی ہائبرڈ نویت اقتدار نے چھپا دیا ہے۔ تحریکیں بلوچ، سندھی اور شیعہ مسنگ پرسنز کی صورت میں ہیں۔البتہ اِن سب میں طاقتور ترین ، نڈر اور خطرات کے باوجود قربانیوں کی مثال بنانی والی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ ہے۔ یہ سرخیل رہی کہ جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنوں اور سامراجی جنگ کے اثرات جیسے مائنز، چیک پوسٹوں، پابندیوں کے خلاف بھرپور آواز بن کر ابھری۔انسانی حقوق کے مطالبہ کے گرد پرامن رکھا۔ اسی کی بہت بھاری قیمت اسکی قیادت اور اسکے کارکنان کو قید و بند اور بدترین ٹارچر کی صورت میں برداشت بھی کرنی پڑتی ہے۔
یوں گمشدہ کرنے کا عمل ریاست کے سرمایہ دارانہ پروجیکٹوں میں اپنی جڑ رکھتا ہے۔جبر و تشدد میں اضافہ پروجیکٹوں سے پیدا مزاحمت اور اس مزاحمت سے نپٹنے میں دشواریوں کا اظہار ہے۔یہ ریاستی اداروں کے متشدد اور غیر انسانی طور طریق اپنانے کو واضع کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ گمشدہ ہونا محض منظر پر نہ ہونا ہی نہیں۔ بلکہ گمشدہ کرنے کا عمل ہمہ جہت مقاصد کے لیے ہوتا ہے۔ گمشدہ ہونے والا شخص کسی نہ کسی طور پر سیاسی وابستگی رکھتا ہے۔ گمشدہ ہونا اِس سیاسی وابستگی کو منفی انداز میں عوام الناس میں پیش کرتا ہے۔ گمشدہ سے وابستہ سیاسی جماعت یا گوریلا گروپ دبائو میں آتا ہے۔ گمشدہ افراد میں سے بیشتر کو ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا اثر بھی اُس تحریک پر پڑتا ہے جو قومی، مذہبی یا علاقائی جبر ، ناانصافیوں اور وسائل پر قبضہ کے خلاف جاری ہوتی ہیں۔ گمشدگیاں اِن تحریکوں میں ڈر اور خوف بڑھا کر اُنہیں جلسے، مظاہروں سے روکتی ہیں۔ یوں محرومیوں کا اظہار اب نارمل طریقوں سے ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حقوق مانگنا جرم بن جاتا ہے۔ہتھیار اٹھانے کا آپشن واحد بدلہ بن کر ابھرتا ہے۔ وہ تمام قوتیں بشمول بیرونی طاقتیں اِسی گھٹن اور عسکریت پسندی کے ماحول میں اپنا حصہ باآسانی ڈال لیتی ہیں۔ کیونکہ اب تمام مزاحمت زیر زمین ہو چکی ہوتی ہے۔ اِسی لیے ریاست میں اشرافیہ بھی نارمل قوانین پر لوٹ کر شورشوں کو روکنے کا کام کرنے سے معذور رہتے ہیں۔ ریاست بند گلی میں کھڑے رہ کر اپنے وجود کو کھوکھلے نعروں سے ہی تسلیم کرواتی رہتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری گمشدگیوں، ٹارچر ،فوجی آپریشنوں کا عمل ایسی ہی بند گلی میں کھڑا ہے۔ سیاسی عمل کو تیز کر کے، قانون ساز اداروں کو انسانیت کے منافی قوانین کو ختم کر نا ناگزیر ہو چکا ہے۔گمشدہ ہونے والوں کے اسباب، قتل کرنے والوں کے محرکات اور لواحقین کو سچائی بتانے کا عمل ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن کہلاتا ہے۔ اس کے قیام کے زریعہ ہی گمشدہ افراد اور ہلاکتوں کا حساب لینا ہو گا۔ تاریخی یہی بتاتی ہے کہ اس وقت کی چوائس شعوری طور پر کرنی ہے، یہ بار بار نہیں آتا۔
درج ذیل میں ہم گمشدگیوں سے متعلق دو مشہور ممالک میں گمشدگیوں اور انکے خلاف مزاحمت اور پارلیمانی کاروائیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔اِن مثالوں کا مقصد یہ دکھاناہے کہ کِن حالات میں گمشدگیاں ہوئیں، جبر کے مقاصد کیا تھے اور پھر کب گمشدہ افراد کے لواحقین کو انصاف کے در کھلے اور کب یہ بند بھی ہو ئے۔
چلی
چلی، لاطینی امریکہ کا وہ ملک ہیں جہاں سوشلسٹ انقلاب کو کچلنے کے لیے آمریت مسلط کی گئی۔ جنرل پنوشے نے ۲۷ سال حکمرانی کی اور اس دور کے ۱۰۰۰ افراد ابھی تک لاپتہ، ۱۹۷۳ تا ۱۹۹۰ چلی میں پنوشے کی آمریت تھی، اس میں ۳۸ہزار افراد ٹارچر کا نشانہ بنے، ۳۲۰۰ افراد اس دوران یا تو مارے گئے یا لاپتہ ہوگئے۔۱۹۹۰ کے بعد ایک کمیشن قائم ہوا اور اس نے ۱۱۳۴ مقدمات میں ۲۵۰۰ افراد کو سزائیں سنائی ان میں۸۵۱ افراد کی ہلاکت کے ذمہ دار ۴۵۱ افراد ۶۱۸ افراد کی گمشدگی کرنے والے ۲۶۶ افراد شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی گمشدہ افراد پر قائم کمیٹی نے حال ہی میں چلی میں بہت کم گمشدہ افراد کے بازیاب کرانے پر چلی کی حکومت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ بازیابی کے عمل کو تیز کیا جائے۔چلی کے لیے اقوام متحدہ میں کمیٹی ایکسپرٹ ہوراشیو راوینا کہتی ہیں کہ جب سے چلی میں جمہوریت بحال ہوئی ہے یہاں انصاف اور اداروں کی بحالی کے اشارے ملتے ہیں۔ پنوشے پر مقدمہ بنا تو اس سے قانون کی عمل داری کا عکس ملتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ جمہوری اقدار اور سچائی ، انصاف کے اصولوں اور گمشدگیوں کے دوبارہ دہرائے جانے کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
البرٹو ہرٹاڈو یونیورسٹی کی الزابتھ لیرا کہتی ہیں کہ گمشدہ افراد کو تلاش کرنے کا کام اس لیے مشکل ہے کیونکہ مقصد ہی انہیں کسی سراغ کے بغیر گمشدہ کرنا تھا۔ کئی اجسام کو ڈائنامائٹ سے اڑا دیا گیا اور قریب ۱۸۰ افراد کو جہاز سے سمندر میں گرا دیا گیا۔چلی میں خانوادوں کی تنظیمیں فوج پر الزام لگاتی ہیں کہ یہ معلومات فراہم کرنے میں اس لیے رکاوٹ ہیں کہ انہوں نے خاموش رہنے کا سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گمشدگیاں قومی ضمیر پر لگا رستہ ہوا زخم ہے اور چلی کو وہ سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جس سے اپنے آپ کو ایسے جرائم پر کاروائی سے مستثنی سمجھنے والوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ گمشدہ افراد کی باقیات کو شناخت کرنے والے ایک یونٹ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس۴۰۰۰ خون کے سامپل اور ۱۸۰۰ ہڈیوں کے ٹکرے ہیں جو گمشدہ افراد کے خانوادوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر خانوادے بھی ختم ہو گئے اور گمشدہ بازیاب نہ ہوئے تب بھی ان کی تلاش جاری رکھی جا سکے گی۔ ایک گمشدہ فرد سرڈا کی بیٹی کہتی ہے کہ ہم تب تک لڑتے رہیں گے جب تک ہم زندہ ہیں ۔
انٹرنیشنل کمیشن برائے مسنگ پرسنز چلی سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہتا ہے کہ چلی میں انسانی حقوق کے میدان میں ایک اہم پیش رفت فوجی عدالتوں کا سویلین عدالتوں پر بالادستی کا خاتمہ ہے۔ یوں گمشدہ افراد کی تلاش پبلک پراسیکیوٹر کرتا ہے اور فوجی عدالتوں کے مقدمات اب سویلین عدالتوں میں منتقل کر دئیے گئے ہیں۔
چلی میں ایک قومی اعداد شمار کا ادارہ قائم کیا گیا ہے جس میں گمشدہ افراد کے لواحقین کے ڈی این اے کے نمونے جمع کیے گئے ہیں جنہیں مختلف گمشدہ افراد کے کمیشنز نے تسلیم کیا ہے تا کہ جب کبھی نئے انسانی اعضاء ڈھونڈنے پر ملیں تو انہیں باسانی شناخت کیا جا سکے۔
چلی میں پاپولر یونٹی پارٹی نے سلویڈور الانڈی کی قیادت میں ۱۹۷۰ میں انتخابات جیتے، یہ لاطینی امریکہ میں پہلی لیفٹ کی پارٹی تھی جو برسراقتدار آئی۔ الانڈی ایک اصلاح پسند لیڈر تھا جو ریاستی سرمایہ کاری کے زریعہ معیشت چلانے کا حامی اور طبقہ اعلی کے بنائے ہوئے پارلیمانی نظام کے زریعہ ہی سماج میں تبدیلی چاہتا تھا۔ البتہ امریکی حکومت کو لاطینی امریکہ میں لیفٹ کے ابھار اور چلی میں سرمایہ دار اشرافیہ کو الانڈی کی مزدور دوست پالیسیاں پسند نہیں تھیں۔الانڈی کے اولین اقدامات میں اجرتوں میں اضافہ، زمینی اصلاحات اور معیشت کی جزوی نجکاری تھی۔ اشرافیہ نے مڈل کلاس قیادت میں احتجاج اور دنگے کروائے اور جوابا الانڈی پیچھے ہٹتا چلا گیا، ہڑتالوں کو غیرقانونی قرار دینے سے لے کابینہ میں فوجی افسران تک کو شامل کر لیا، تاآنکہ کہ فوج نے صدارتی محل پر بمباری کر کے بغاوت کر دی اور پھر ۳۰ ہزار افراد کا قتل عام ہوا جن کی بڑی تعداد پاپولر یونٹی کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹی کارکنان کی تھی ۔جنرل پنوشے نے اقتدار پر قبضہ کیا اور اسے امریکی و دیگر سامراجی ریاستوں کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ ریاستی خوف و دہشت کے لیے ڈیتھ اسکواڈز، ٹارچر سیل اور قانون سازی کر کے اقدام قتل تک کے قوانین کو تبدیل کر دیا گیا۔گمشدہ کرنے کا عمل جبر کے عمل کا ایک حصہ ہے۔ گرفتاریاں، اغواء، ٹارچر، قید تنہائی، قتل تک پر جا کر منتج ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد البتہ قیدیوں کی بہت بری طرح سے تذلیل کرنا ہوتا ہے ۔
ارجنٹینا
ارجنٹینا وہ ملک ہے جہاں سیاسی مخالفین کی گمشدگی کا عمل چلی کی نسبت زیادہ لمبے عرصے تک جاری رہا۔ ۱۹۶۰ تا ۱۹۹۰ کی دہائی تک جاری گمشدگیوں کا عمل اپنے عروج پر ۱۹۷۳ تا ۱۹۸۳ کے دوران رہا جب فوجی حکومت نے لیفٹ یا اس سے وابستہ کسی بھی شخص کو نشانہ بنایا ۔ آپریشن کونڈر میں ڈرٹی وار نامی اس ریاستی دہشت گردی کو امریکی حمایت حاصل تھی ۔ دائیں بازو کے ڈیتھ اسکواڈ، فوجی اور سیکورٹی فورسز نے ۹ سے ۳۰ ہزار افراد کو قتل یا گمشدہ کیاجن کی اکثریت ریاستی دہشت گردی کے سبب کہیں بھی رپورٹ بھی نہ کی جا سکیں ۔ ان کا بنیادی نشانہ کمیونسٹ گوریلا اور انکے حمایتی تھے لیکن آپریشن کونڈور میں طلبہ، ملیٹنٹ، ٹریڈ یونینسٹ، ادیب، صحافی، فنکار اور کوئی بھی شہری جو لیفٹ ایکٹوسٹ تھا اسے بھی نشانہ بنایا گیا۔ جو گمشدہ ہوئے ان کی اکثریت سیاسی اور نظریاتی طور پر فوجی حکومت کو خطرہ سمجھی جاتی یا پھر فری مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیوں کو خطرہ تھیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا قتل عام کا سبب فوجی جنتا کی جانب سے سماجی اور سیاسی مخالفت کو خاموش کرانا تھا ۔
پیرون ارجنٹینا کا وہ لیفٹسٹ صدر تھاجس کی ۷۰ کی دہائی میں سرمایہ دار پرست ہوتے جانے نے انہیں بھی مخالف کر دیا جو اسے پچاس اور چالیس کی دہائی میں سپورٹ کرتے۔ فوجی و سویلین جھتوں کے زریعہ ہر اس شخص کو نشانہ بنایا گیا جو متحرک گروپوں سے تعلق رکھتا ۔ ان میں ٹریڈ یونین، طلبہ، اسکول کے طلبہ تک شامل تھے۔ ان غیر مسلح افراد کو نشانہ بنانے کے لیے توجیح یہ تھی کہ یہ حکومت کے نظریہ سے متفق نہیں یا اسکے اقدامات کی حمایت نہیں کرتے وہ خطرہ ہیں، ہر وہ پارٹی جو دشمن کی ساتھی ہے وہ دشمن ہے۔
اس حکومت کے نشانے پر وہ بھی ہوتے جو حکومتی کرپشن کی نشاندہی کرتے یا جن کے بارے میں تصور کیا جاتا کہ ان کے لیفٹ ونگ خیالات ہیں۔ ٹارچر کو تفتیش کا طریقہ بنانے والے ایک جنرل رامون کیمپس نے پانچ ہزار افراد کو جبری گمشدہ کیا اور ان میں حاملہ خواتین کو بھی یوں چھین لیا کہ باغی والدین کی اولاد بھی باغی تربیت پاتی ہے۔ یہ اچانک غائب ہو جانے والے لوگ ارجنٹینا میں ڈسپیریسیدوس کہلاتے ہیں۔ ایک دن میں دو افراد گمشدہ ہوتے ۔
۱۹۸۳ء میں انتخابات ہوئے تو الفانسو کی حکومت نے ایک نیشنل کمیشن برائے گمشدہ افراد قائم کیا اور ڈرٹی وار میں جرائم کی تحقیقات ہوئیں۔ سینکڑوں گواہ پیش ہوئے، تین سو افراد پر کیس چلے اور کلیدی افسران کو سزائیں ہوئیں، فوج نے مزید افسران پر مقدمات کی مخالفت بغاوت کی دھمکی میں بدل دی اور یوں ۱۹۸۶ میں قومی ازسرنو تشکیل پروسس کے نام پر مقدمات پر کاروائی روک دی گئی اور ۱۹۹۴ تک انہی فوجیوں کو بغاوت کی سرکوبی پر سراہا جانے لگا۔ البتہ ۲۰۰۳ء میں پارلیمان نے فوجیوں کو عام معافی کے قوانین پھر ختم کر دئیے اور ۲۰۰۶ء میں انسانیت کے خلاف جرائم اور قتل عام کے مقدمات پھر بحال کر دئیے گئے ۔
حوالے
1. Committee on Enforced Disappearances examines the report of Chile, https://www.ohchr.org/en/NewsEvents/Pages/DisplayNews.aspx?NewsID=24469&LangID=E
2. Where are they?’: families search for Chile’s disappeared prisoners, by Martin Bernetti, The Guardian, 14 August 2019 https://www.theguardian.com/world/2019/aug/14/where-are-they-families-search-for-chile-disappeared-prisoners
3. International Commission on Missing Persons https://www.icmp.int/the-missing/where-are-the-missing/chile/
4. 40 years since the coup in Chile: lessons to learn, Ken Olende, Socialist Worker, 10 Sept 2013, https://socialistworker.co.uk/art/34348/40+years+since+the+coup+in+Chile%3A+lessons+to+learn
5. Pamela Constable and Aruto Valenzuela, A Nation of Enemies: Chile Under Pinochet, New York: W.W Norton & Company, 1993., p. 91
6. McSherry, Patrice (2005). Predatory States: Operation Condor and Covert War in Latin America. Lanham, Maryland: Rowman & Littlefield Publishers. p. 78. ISBN 0742536874, https://en.wikipedia.org/wiki/Dirty_War#cite_note-10
7. Blakeley, Ruth (2009). State Terrorism and Neoliberalism: The North in the South. Routledge. pp. 96–97. ISBN 978-0-415-68617-4., https://en.wikipedia.org/wiki/Dirty_War#cite_note-Blakeley2009-6
8. Robben, Antonius C. G. M. (September 2005). “Anthropology at War?: What Argentina’s Dirty War Can Teach Us”. Anthropology News. Retrieved 20 October 2013, https://en.wikipedia.org/wiki/Dirty_War#cite_note-Robben-17
9. “Julio Strassera’s prosecution” Archived 16 January 2007 at the Wayback Machine 1985 Trial of the Juntas (Juicio a las Juntas Militares).
10, https://en.wikipedia.org/wiki/National_Commission_on_the_Disappearance_of_Persons#cite_note-1
11. https://en.wikipedia.org/wiki/Dirty_War#cite_note-25
۲۱ فروری ۲۰۲۱
pdf version here: https://cdn.fbsbx.com/v/t59.2708-21/152183271_440076107321173_1316784246501518027_n.pdf/%D9%84%D9%88%DA%AF-%DA%AF%D9%85%D8%B4%D8%AF%DB%81-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA2.pdf?_nc_cat=109&ccb=3&_nc_sid=0cab14&_nc_eui2=AeFu_OTCba-Vn7T8kEN96NWgiMwJeDwqiHiIzAl4PCqIeDs-07afy8w63l6VxEExO6s&_nc_ohc=Y1cIuR0TZzEAX-1XZzT&_nc_ht=cdn.fbsbx.com&oh=f033f746f24e9d588a797ed627bc42a3&oe=60331A5C&dl=1
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں