لاپتہ افراد کمیشن ناقص کارکردگی، لواحقین کا اسلام آباد میں احتجاج

224

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کردی ہے۔ احتجاج میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے دس فیملیز شامل ہیں۔

لاپتہ افراد کے لواحقین گذشتہ روز اسلام آباد پہنچے تھیں جہاں انہوں نے احتجاجی کیمپ قائم کیا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی مظاہرین کے ساتھ شامل ہے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن کے رویے اور کارکردگی سمیت سالوں سے لاپتہ افراد کے عدم بازیابی پر احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

گذشتہ روز لواحقین کو پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کرنے میں پہلے پولیس کی جانب سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم بعد ازاں معاملات طے ہوگئے اور لواحقین نے احتجاجی کیمپ قائم کردی۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور رکن اسمبلی محسن داوڑ، نیشنل پارٹی کے سینیڑ اکرم دشتی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینٹر عثمان کاکڑ اور نامور صحافی حامد میر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

محسن داوڑ نے اس حوالے سے کہا میں نے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاجی کیمپ میں حاضری دی جو اپنے گھروں سے بہت دور آئے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے پیارے زندہ یا مارے جاچکے ہیں۔

محسن داوڑ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینا ہوگا، ہم اس عمل کیخلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ نیشنل پارٹی کے اکرم دشتی کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی کارکنوں کو بازیاب کیا جائے اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے ٹی بی پی کو بتایا کہ لاپتہ افراد ایک امید لیکر اسلام پہنچے ہیں کہ شاید وفاقی حکومت، وزیراعظم اور ادارے ان کی بات سنیں اور انسانی حقوق کے ادارے لواحقین کی آواز کو دنیا تک پہنچائیں۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہو اور اس مسئلے کو قانونی طور پر حل کرنا چاہیے۔

لواحقین لاپتہ افراد کیلئے کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے ان کا کہنا ہے کہ کمیشن سماعتوں کے نام پر وقت گزار رہی ہے جبکہ بعض لواحقین یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ کمیشن میں سماعت کے موقع پر مختلف طریقوں سے ان کی تذلیل کی جاتی ہے، ہر بار انہیں مختلف دستاویزات اور چشم دید گواہوں کو لانے کے نام پر دوسری تاریخ دی جاتی ہے۔

اسلام آباد، دوسرے روز احتجاج جاری

نصراللہ بلوچ کے مطابق کمیشن کا اصل مقصد جبری طور پر لاپتہ افراد کے بازیابی میں معاونت سمیت ان میں ملوث افراد کے متعلق سفارشات سامنے لانا تھا مگر 2012 سے کمیشن میں برائے نام سماعتیں ہورہی ہے، کوئی شخص کئی سے بازیاب ہوتا ہے تو کمیشن لکھ دیتی ہے کہ اس کیس کو نمٹا دیا گیا۔

دی بلوچستان پوسٹ نے لاپتہ افراد کمیشن سے متعلق بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کمیشن کا ایک تاریخ ہے جو حمودالرحمن کمشین سے شروع ہوتا ہے۔ آج تک کسی کمیشن پر عمل درآمد تو کجا بلکہ اسے پبلک تک نہیں کیا جاتا ہے۔ جب بات بلوچستان کی ہو تو یہ کمیشن ان سے کہیں زیادہ بے اثر اور بے نتیجہ ہوتے ہیں۔

دلمراد بلوچ کا کہنا ہے کہ جب خضدار میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تو جسٹس مسکان زئی کی سربراہ میں کمیشن قائم کی گئی۔ اس کمیشن نے ریاست کو بچاکر شفیق مینگل کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ دوسری طرف شفیق مینگل آج بھی دندتا پھررہا ہے، بلکہ وہ گذشتہ انتخابات میں حصہ لے چکا ہے۔

دلمراد بلوچ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن محض ایک شوشہ ہے تاکہ عالمی برادری یا عالمی اداروں کو دکھایا جائے کہ ریاست اس انسانی بحران کو حل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کمشین کا اصل مقصد ریاست کے جنگی جرائم کو چھپانا اور اس سارے عمل سے ریاست کو بری الذمہ قرار دلانا ہے تاکہ ریاست پر حرف نہ آئے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس نام نہاد کمیشن نے لاپتہ افراد کی بازیابی تو اپنی جگہ، لاپتہ افراد کے لواحقین کی تذلیل تک کی۔ انہیں سننا تک گوارا نہیں کرتا ۔ ہمیں اس کمیشن سے کسی بھی قسم کی کوئی امید نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سارا ڈرامہ ریاست کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے ہورہا ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

اسلام آباد مظاہرے کے حوالے سے دلمراد کا کہنا ہے کہ اسلام آباد چونکہ پاکستان کا دارلحکومت ہے، جہاں ملکوں کے سفارت خانے اور عالمی میڈیا موجود ہے۔ اسی لئے لاپتہ افراد کے لواحقین ہر چند سال بعد اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں لیکن ہم سب گواہ ہیں کہ وہاں سے خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے تمام ادارے بلوچوں کے اغواء اور گمشدگی پر خاموش ہیں۔ اسلام آباد مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کا بھی مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن بلوچستان سے متعلق بولنے اور لکھنے پر سب پر پابندی عائد ہے۔ اگر کوئی جرات کرے تو ڈیکلان واش کی طرح رات کے اندھیرے میں ہوٹل میں گھس کر پاکستان چھوڑنے کی چھٹی ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے یا حامد میر کی طرح گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حامد میر نے بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر اپنے ٹاک شو میں ایک پروگرام کی تو نتیجے میں وہ آج بھی دو گولیاں اپنے جسم میں لیے پھررہا ہے۔

اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج دوسرے روز جاری ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی آمد جاری ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج پانچ روز تک جاری رہیں گی اور 14 تاریخ کو ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جائے گا جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹ پر لاپتہ افراد کے حوالے سے کمپئین بھی جاری ہے۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ عمران خان اپنے بیان پر کہ “حکومت نہیں چاہتی ملک میں کوئی شخص لاپتہ ہو” قائم رہتے ہوئے بلوچستان کے جبری طور پر لاپتہ افراد کو بازیاب کرائے۔