فکرِ بانک زندہ ہے
تحریر: واحد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
رات کے بارہ بجے جب میں تھکا ہارا اپنے بستر پہ لیٹا ہوا تھا من ہی من سوچ رہا تھا کہ اب موبائل بند کر کے سو جاؤں گا لیکن ایک ایسی خبر میرے سامنے آ گئی کہ دیکھ کر میری نیند اُڑ گئی۔
“بانک کریمہ اس دنیا میں نہیں رہی”
یہ خبر سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے، بس رب سے التجاء کیا اے رب آپ کو اور لوگ نہیں ملتے کہ ہر دن بلوچ کو لے جاتے ہو اور پھر ہمارے لیڈروں کو لے جاتےہو، ایک دن آپ خدا انسان بن کر آجانا اور بلوچ کی حالات زندگی دیکھنا ۔
پھر میرا جسم کانپنا شروع ہو گیا، گویا زمین میرے پیروں تلے سے کھسک رہی ہو اور بہت بڑا زلزلہ آرہا ہو۔ میں اس قابل نا رہا کہ موبائل بھی اٹھا سکوں۔
بانک کریمہ کی جب بھی یاد آتی ہے، تو آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں اور میں بہت بے چین ہوتا ہوں بانک کریمہ بلوچ نے اپنی زندگی بلوچ اور مظلوموں کیلئے قربان کی تھی۔
بانک کو بلوچستان کے پہاڑوں، راستوں، گلیوں، محلوں، درختوں اور کھجور کے نخلستانوں سے عشق تھا۔
بانک نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ اپنی سرزمین کو چھوڑ کر کینیڈا جاکر ایک مہاجر کی زندگی گذارے گی۔ بانک ہر وقت اپنی سہلیوں کو واپس آنے کیوعدے کرتی تھی۔ بانک اپنی وعدوں کو بھول کر کہاں جاتی؟
بانک آج بلوچستان کا ہر درخت آپ کی شہادت کی خبر سن کر خود بہ خود مرجھا رہا ہے اور پہاڑوں کی وہ رنگت نہیں رہی جب آپ ان میں سفر کرتی تھی۔ بانک بولان اور مکران کی پہاڑوں کے وہ رنگ چلے گئے۔ بانک گوادر کے سمندر کی لہریں وہ لہریں نہیں رہی جو آپ کے پیروں کو چومتی تھی۔
بانک آپ تو چلی گئیں پوری بلوچ قوم کو یتیم کر کے چلی گئیں۔
بلوچستان کے ہر شخص کے آنکھیوں کو آنسووں کی پٹی باند کر چلی گئی ہر انساں بانک آپ کی یادوں میں ہے۔
بانک آپ نےجانے کے بعد صرف بلوچستان کو یتیم نہیں بلکہ پوری دنیا کو یتیم کر چلی گئیں۔
کوئی بھی ماں اور باپ اتنی تربیت اپنی سگئے بچوں کو نہیں کرتیں، اتنی تربیت ہمیں لمہ وطن نے دیا ہے پورے بلوچستان کے بچوں کو اپنے بچےسمجھ کر تعلیم دیتی ، بانک کی قربانوں کو کبھی بھی بلوچستان کیےعوام نہیں بھول سکتے۔
بانک آپ صرف بلوچستان کی آواز نہیں تھی بلکہ پوری دنیا میں مظلوموں کی آواز تھیں۔
لمہ آپ کی وہ بات میں کبھی بھی بھول نہیں سکتا ہوں آپ نے کہا کے جاؤ تعلیم حاصل کرنا کل آپ کو اس بلوچستان اور بلوچ تحریک کو آگے لے جانا ہے۔
بانک بلوچستان آپ کی جانے کے بعد ویران ہے لیکن آپ کی تربیت نے بہت سے بلوچ بیٹے بیٹیاں پیدا کئے ہیں جو بلوچ تحریک کو مزید تیزی کے ساتھ آگے لے جائیں گے۔
انہی درسگاہوں سے مزید بانک کریمہ جنم لیں گئے اور تمھاری اس طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے راہِ آزادی پہ گامزن ہو کر اس مٹی پر قربان ہونگے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا تب تک جب تک آپ کی یہ اکھڑ ظلم ستم آپکے گلے مِِیں پندھا بن کر آپ کی شکست نہیں بنتی ۔
ہر انسان آپ کی یادوں میں رہتی ہے آپ تو جسمانی طور پر ہم میں نہیں ہو لیکن آپ کی فکر اور فلسفہ پہ عمل پیرا ہو کر ہزاروں آپ جیسے مظلوموں کی آواز بنئیں گے۔
مجھے یقین نہیں آتا کے بانک ہم میں نہیں ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ بانک مرچکی ہے بانک زندہ ہے بانک نہیں مرتی۔
بانُک کریمہ بلوچ زندہ ہے بلوچستان کے پہاڑوں میں شال میں تربت میں پنجگور میں خاران میں نوشکی میں خضدار میں مستونگ میں بیلہ میں آواران میں سبی میں ڈیرہ مراد جمالی میں اوستہ محمد حب میں کراچی میں بانُک زندہ ہیں بلوچستان کہ ہر غیرت مند بلوچ اور دنیا کہ دلوں میں زندہ ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں