فرق
تحریر: داد شاہ یار جان
دی بلوچستان پوسٹ
پہلی بات!
ماہرِ نفسیات پاگل تھے، کیونکہ انہوں نے انسانوں کو سمجھنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کو پتہ نہیں تھا وقت کے ساتھ ساتھ انسان ان کے تبصروں سے بالاتر نکل جائیں گے۔
ماہرِ معاشیات بھی پاگل تھے ماہرِ اخلاقیات بھی پاگل تھے ماہرِ بشیرت بھی پاگل تھے کہ انہوں نے بہت سارا پڑھا تھا اور دریافت کیا تھا اور انسان کو انسان بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔
دوسری بات!
کتب پڑھتے سب ہیں میں بھی آپ بھی اور بہت سے لوگ بھی۔
لیکن بات یہ ہے کہ میں اور پڑھ کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ ہم پر کچھ وقت کے لئے اثر کرتا ہے ہم اس علم کو سنبھال نہیں پاتے ہیں اس کے مقدس مقصد کو سر کے اوپر سے گذار بیٹھتے ہیں ہم کتب کی اہمیت کو سمجھنے کے بجائے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں اس کو عمل میں نہیں لاتے ہیں۔
تیسری بات!
جو پڑھ لیتے ہیں اپنا وقت کتب پر وقف کرتے ہیں محنت کرتے ہیں معلومات حاصل کرتے ہیں دھیان دیتے ہیں اس میں لکھے گئے ہر الفاظ پر نظر ثانی کرتے ہیں اس کو پوجتے ہیں، اس سے پیار کرتے ہیں اس میں لکھے کئے ہر ورق کو اپنے سینے میں دفن کرتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں اور ان کتب کی اصل وجہِ شائع اور مقصد کو دل و جان سے عزت دیتے ہیں۔ اس کے ہر لفظ کو اپنے طرزِ زندگی میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اس میں خیانت نہیں کرتے ہیں۔ لیکن میری اور آپ کی طرح کچھ لوگ اس محنت کش کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس کو پاگل کہنا سمجھنا اور اس کا مزاق اڑاتے ہیں کہ دو چار کتاب پڑھ کر اپنا اوقات بھول گئے ہو کہتے ہیں۔ یہ کتابیں سب نے پڑھی ہیں کوئی پاگل نہیں ہوا۔
فلاں فلاں یار اگر تم اس بندے کی طرح نہیں سوچتے سمجھتے اور اس کی طرح تمہار رجحان نہیں تو خدارا اس طرح اپنی جہالت کے سند کو فخر کے ساتھ نہ دکھائیں۔۔۔
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں