سریاب میں انقلاب – محمد عمران لہڑی

340

سریاب میں انقلاب

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے تو پورا بلوچستان شورش زدہ ہے کچھ دہائیوں سے. ان حالات میں کچھ علاقہ زیادہ بدنام ہوگئے جہاں منشیات کا کاروبار، چوری ڈکیتی اور قتل عام روز کا معمول تھا. انہی علاقوں میں سریاب سر فہرست تھا. یہاں منشیات کے اڈے ہوا کرتے تھے شاید کچھ ابھی بھی چھپ کے اس دھندے میں ہیں. چوری ڈکیتی سرے عام دن دہاڑے ہوا کرتا تھا. ان چوروں کی سرپرستی اتنی تھی کہ اگر پکڑا جاتا تو بمشکل ایک دن تھانے میں گزار کر پھر آزاد ہوتا. اتنی ہمت کہ بعض واقعات میں گھر میں گھس کر مردوں و عورتوں پر تشدد کرکے گھر سے سامان لوٹ کر آسانی سے فرار ہوتے تھے. کوئی دن کو محفوظ تھا نہ کہ رات کو. ایک بے چینی سے پائی جاتی تھی. ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوجوانوں کو منشیات کی طرف راغب کیا جاتا تھا جو ابھی بھی کچھ علاقوں میں دکھائی دے رہا ہے. تعلیم بھی نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ اس علاقے کے آبادی کی اکثریت حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے. باقی کچھ صاحب جائداد والے تو اپنے بچوں کو ان علاقوں سے نکال کر دوسرے بڑے شہروں کی طرف تعلیم حاصل کرنے روانہ کرتے۔

ان معاشرتی برائیوں کے علاوہ ایک خطرناک برائی قبائلی جنگ، فساد بھی تھا. اس فساد سے تو ہمارے بیشمار نوجوان لقمہ اجل بن گئے. آپس کی لڑائی ہمارے اکثر بیشتر علاقوں کو تباہ کر کے رکھ چکا ہے. سریاب بھی قبائلی لڑائی جنگوں کا اڈہ مانا جاتا تھا. خاص یہی علاقہ جہاں ایک کامیاب تین روزہ سریاب لٹریری فیسٹیول کا انعقاد ہوا یعنی لوڑ کاریز. لوڑ کاریز سریاب کا وہ علاقہ تھا جہاں لوگ دن کو بھی جانے سے ڈرتے تھے.

لیکن ابھی ایک انقلاب آگیا سریاب میں. اب سریاب کے نوجوان باشعور بن گئے ہیں. وہ اب کسی امداد کا انتظار میں بیٹھیں گے نہ کہ کسی کے آسرے پہ اپنی جدوجہد کو روکیں گے. اب علم اور آگاہی کو گلی گلی نگر نگر میں عام کیا ہے. اب قبائلی جھگڑوں کی جگہ علمی بحث و مباحثہ نے لے لیا ہے. منشیات، چوری ڈکیتی کے برے دھندوں سے معاشرے کو پاک کرکے کتاب، قلم اور ادبی ماحول کو تعمیر کر رہے ہیں. علم کی روشنی نے خوف کے تاریک لمحوں کو مٹا دیا ہے. اب دن اور رات کو کسی کو کسی کا خوف نہیں کیونکہ اب تو نوجوان اپنے محنت اور مدد سے کتاب لوگوں کو منتقل کر رہے ہیں.

یہ سریاب کے تاریخ کا انمول کردار ہے جس میں کچھ نوجوان کتاب جمع کرکے ایک ترتیب کے تحت لوگوں کو پڑھنے کیلئے اس کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں. “ریڈر زون سریاب” کے نام سے جانا جاتا ہے. یہ کاوش انیس الرحمان، امجد علی واصف اور ان کے دوستوں کا ہے جنہوں نے ایسا تاریخی اور ایک انتہائی مثبت قدم اٹھایا ہے. ہر باشعور نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے کو ان کے امداد اور حوصلہ افزائی کرنا چاہیے.

یہاں ایک اور تاریخی کارنامے کا ذکر کرتا ہوں. اس پروگریسو عمل کو سرانجام دینے والے ہمارے نوجوان بسم اللہ، نوید انجم اور ان کے دوستوں کے مخلصانہ محنت اور ہمت سے لوڑکاریز سریاب میں ایک لائبریری کو فعال کردیا جس میں اب کافی تعداد میں طلبہ اور طالبات اسٹڈی کرنے آتے ہیں. اس سے سریاب کو ایک معاشرتی ترقی اور کامیابی ملی ہے.

گذشتہ تین دن سے جاری سریاب لیٹریری فیسٹیول کامیابی سے اختتام پذیر ہوا. 21 فروری مادری زبانوں کے عالمی دن سے شروع ہونے والے فیسٹیول میں مادری زبانوں کے اہمیت پر ادباء شعراء نے روشنی ڈالی. اس کے علاوہ مختلف سیشن بھی منعقد کی گئی جہاں کتاب کی اہمیت اور ضرورت، نوجوانوں کی معاشرے میں زمہ داریاں اور دوسرے عنوانات پر بحث مباحثے ہوئے. کافی تعداد میں لوگ نوجوان بوڑھے بچے، طلباء مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کیں. یہ ایک انقلاب ہے سریاب میں. اب بلوچ نوجوان ادبی ماحول، کتاب دوستی، علمی بحث مباحثہ اور عملی خدمات سے اپنے معاشرے کو سنوار رہے ہیں.


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں