خضدار: توتک سے لاپتہ خاندان کی گمشدگی کو 10 سال مکمل

636

توتک آپریشن میں فورسز نے کئی افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے 16 افراد دس سال بعد بھی بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک سے فوجی آپریشن میں حراست بعد لاپتہ ہونے والے ایک ہی خاندان کے 16 افراد کی گمشدگی کو دس سال مکمل ہوگئے جبکہ مذکورہ خاندان کے لواحقین اپنے پیاروں کے حوالے سے تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔

خضدار میں 18 فروری 2011 کو پاکستانی فورسز توتک کے گاؤں کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لی، کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی آپریشن میں گاؤں کے تمام مرد افراد کو ایک جگہ جمع کرکے فورسز اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا بعدازاں ان میں سے کئی افراد بازیاب ہوگئے لیکن 82 سالہ محمد رحیم خان قلندرانی اور اس کے خاندان کے دیگر 16 افراد بازیاب نہیں ہوسکیں۔

لاپتہ قلندرانی خاندان کے خالصہ بلوچ کا کہنا ہے کہ 18 فروری 2011 کے آپریشن میں پاکستانی فورسز ہمارے خاندان کے سارے مرد حضرات کو گرفتار کرلیا، گرفتاری کے بعد خواتین اور بچوں کو نکال کر ہمارے گھروں کو فورسز نے جلا دیا ۔

خالصہ بلوچ کا مزید کہنا ہے ان لاپتہ افراد میں میرے 82 سالہ دادا محمد رحیم خان قلندرانی بھی شامل ہیں جبکہ دیگر لاپتہ افراد میں میری چچا ڈاکٹر محمد طاہر، ماما فدا احمد، ندیم، نثار، آفتاب، آصف، ڈاکٹر ظفر، ضیاء الرحمن اور خالہ کے تین بیٹے عتیق، وسیم اور خلیل شامل ہیں۔

گذشتہ سال جولائی کے مہینے میں  لاپتہ آصف قلندرانی کے والد طویل علالت کے باعث انتقال کرگئے۔ مرحوم میر جمعہ خان قلندرانی توتک کے ہائی اسکول میں بطور پرنسپل خدمات سرانجام دے چکے تھے۔

خیال رہے توتک کے علاقے مژی سے اجتماعی قبریں ملی تھی ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی دو ہزار چودہ میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ ان قبروں سے کل ایک سو انہتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔

توتک سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عالمی انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی جبکہ لواحقین کی جانب سے مختلف اوقات میں مظاہرے کیئے جاچکے ہیں لیکن تاحال مذکورہ افراد بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

خالصہ بلوچ کا کہنا ہے کہ توتک میں اجتماعی قبریں ملنے سے ہماری تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ ہمارے پیارے زندہ ہے یا انہی لاشوں میں شامل تھے۔ ہم انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمیں انصاف دلانے اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے تمام افراد سمیت ہمارے پیاروں کی بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔