حسان اور حزب اللہ قمبرانی کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل، کوئٹہ میں احتجاج

359

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین، بچوں اور طلباء طالبات کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر قمبرانی برادرز کی بازیابی سمیت بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ درج تھے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ حسان قمبرانی کی ہمشیرہ حسبیہ بلوچ نے کہا کہ شاید کچھ لوگ پہلی بار میری آواز سن رہے ہیں لیکن کوئٹہ کی سڑکیں مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں میں گزشتہ ایک سالوں سے ان سڑکوں پر انصاف مانگتی پھر رہی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سال کٹھن رہی ہے، میں اور میری بیچاری ماں ان سڑکوں پر فریادی رہیں، سیاسی لوگوں سے ملتے رہیں اور لوگوں کے بھیانک چہرہ دیکھیں۔ انہوں نے کہا ہم عدالتوں اور کمیشن میں پیش ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ ظلم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے دو لاشیں وصول کی جن پر بدترین تشدد کی گئی تھی، میں نے ایک خاندان کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔

انہوں نے کہا میں نے پلٹنے کا فیصلہ اس لیے بدل نہیں کیا کہ حسان قمبرانی اور حزب اللہ لاپتہ ہیں، میں نہیں چاہتی کوئی اور خاندان میری طرح ان کے سامنے بے بس ہو۔

انہوں نے کہا کہ میں گذشتہ ایک سال سے اس اذیت ناک سفر سے گزر رہی ہوں، یہاں گیارہ گیارہ سالوں سے لوگ اذیت سہہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہم اس وقت اٹھتے ہیں جب کچھ نہیں رہتا، ہم صرف افسوس کے لیے اٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اس ایک سال میں اپنے گرد لوگوں کا ایک ہجوم پایا لیکن اپنے ساتھ کسی کو نہیں پایا۔ میں نے اپنے گرد ایک شور پایا لیکن آواز اٹھانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ جو چند میرے ساتھ ہیں وہی زندگی میں میری سرمایہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر شیرین مزاری کہتے ہیں کہ جمہوریت میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کی گنجائش نہیں لیکن میرا بھائی تمہاری دور حکومت میں لاپتہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک سال سے انصاف کی تلاش میں ہوں مجھے بند کمروں میں تسلیاں دی جاتی ہیں، خاموش رہنے کو کہتے ہیں کہ کچھ نہیں بولو۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتی کہ یہ جدوجہد مجھے کہاں تک لے جائیگی لیکن آپ سب ہماری آواز میں آواز ملائیں۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے رہنماوں سمیت دیگر مقررین نے کہا کہ اگر لاپتہ افراد ریاستی آئین کے مجرم ہیں تو ریاست اپنے آئین کا لاج رکھتے ہوئے ان کو اپنے عدالتوں میں پیش کرے اور اگر مجرم قرار پائے تو انکو سزا دے لیکن ریاست کے پاس کوئی جواز نہیں کہ سالوں سے لوگوں کو لاپتہ کرکے خاندانوں کو اذیت میں ڈال دے۔

مقررین نے کہا کہ اس ریاست کا بلوچوں سے سلوک ہمیشہ ظالم اور محکوم کا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ریاست کے پاس کسی لاپتہ شخص کے خلاف ایک ثبوت نہیں ہے اور شرمندگی سے بچنے کے لیے انکو ٹارچر سیلوں میں ڈال کر بلوچ قومی استحصال جاری رکھا ہوا۔

خیال رہے کہ حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کو گذشتہ سال 14 فروری کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور آج ان کی گمشدگی کو ایک سال پورا ہونے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی جانب سے کمپئین کا انعقاد کیا گیا ہے جو اس وقت پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ پر ہے۔

سوشل میڈیا صارفین لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

دریں اثناء پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ آج چوتھے روز بھی جاری رہا اور مختلف سیاسی سماجی کارکنان نے اظہارِ یکجہتی کے لیے کمیپ آمد کے موقع پر حکومت پاکستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔