بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ایک طرف بلوچستان میں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے تو دوسری جانب موجود چند گنے چنے اداروں میں بھی ایسے انتظامیہ مسلط کیے گٸے ہیں جو تعلیمی اداروں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہے ہیں جس کی ایک واضح مثال گرلز ڈگری کالج حب کی انتظامیہ ہے، بد قسمتی کی انتہا تو یہ ہے کہ اب تک کئی عرصہ گزرنے کے باوجود بھی گرلز ڈگری کالج حب کو بلڈنگ میسر نہیں اور طالبات اپنی کلاسز گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول میں جاری رکھ رہی ہیں اس کے باوجود نااہل انتظامیہ کا ان کے ساتھ تعلیم دشمن رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ حب جو کہ بلوچستان کا چوتھا بڑا شہر اور انڈسٹریل حب ہے جس میں ایک لاکھ پچتر ھزار (175000) سے زائد نفوس کےلیے فقط ایک ہی گرلز ڈگری کالج بغیر بلڈنگ کے ہے اور اسے بھی نااہل انتظامیہ نے غیر ذمہ دار پرنسپل کی ایما پر مسائل کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ طالبات کو نہ پینے کے پانی کی سہولت میسر ہے نہ ہی اسکول بلڈنگ میں ان کے لیے دیگر بنیادی سہولیات ہیں، اس کے علاوہ اسکول انتظامیہ انہیں کبھی کلاسز پر تالہ لگا کر تنگ کرتی ہے تو کبھی کالج کے پرنسپل صاحبہ کی تعلیم دشمنی پر مبنی رویہ انہیں پریشان کیے رکھتی ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود طالبات اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کےلیے کوشاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینکڑوں طالبات کے لیے کالج میں فقط آٹھ مستقل لیکچرار تعینات ہیں اور ان میں سے بھی فقط تین لیکچرار باقاعدگی کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر اپنے فرائض پوری کرتی ہیں جب کہ باقیوں کو گھر بیٹھے تنخواہ مل جاتی ہے، لیکچرار نہ ہونے کے باوجود طالبات مسلسل کالج آتے ہیں لیکن ان کے ساتھ انتظامیہ کا رویہ انتہاٸی آمرانہ ہے۔ معمولی سے سوال اور بنیادی سہولیات کے مطالبے پر انہیں کالج سے ایکسپیل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ کالج ھٰذا میں ایک عام کلرک کا رویہ طلباء کے ساتھ انتہائی نامناسب ہے اور انہیں آواز اٹھانے کی صورت میں انتظامیہ ہراساں کرتی رہتی ہے۔
کالج کی پرنسپل صاحبہ خود کو ایک ملکہ تصور کرکے طالبات کو ہراساں کرنے اور انہیں خاموش رکھنے کے نت نٸے حربے آزماتی ہیں جس میں طالبات کے اندر اپنا ایک مخبر گروہ رکھنا بھی شامل ہے۔ یہ تمام تر حربے وہی ہیں جو بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ نے جاوید اقبال کی ایما پر اختیار کیے تھے اور وہاں (یو او بینز) نامی نام نہاد گروپ بنا کر طلبا کو ہراساں کیا جاتا تھا، اس کا نتیجہ ایک بھیانک اور شرمناک اسکینڈل کی صورت میں سامنے آیا۔ آج حب گرلز ڈگری کالج کے طالبات کو بھی ایک ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کالج انتظامیہ جان بوجھ کر کالج کو مسائل کا شکار بنانا چاہتی ہے تاکہ وہ آزادی سے اپنی لوٹ مار اور ھراسانی کے حربے جاری رکھ سکیں۔ طالبات کو اپنے حقوق کی پاداش میں ایکسپیل کرنے اور انہیں ممکنہ نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی دینا کیا ہراسانی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کالج کے انتظامیہ نے لوکل سرٹیفکیٹ کی آڑ میں درجنوں طلبہ و طالبات کے داخلے روک رکھے ہیں اور کالج کے طالبات کو کسی بھی قسم کی کوئی سماجی و تعلیمی ایونٹ کرنے کی کالج میں بالکل بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ حکام بالا گرلز ڈگری کالج حب کے انتظامیہ کے آمرانہ اور طالبات کے ہراسانی پر مبنی پالیسیوں اور رویوں کا نوٹس لےکر جلد از جلد انہیں راہ راست پر لائیں بصورت دیگر بی ایس او احتجاج کے تمام جمہوری راستے اپنا کر اس کرپٹ انتظامیہ کے خلاف تحریک چلائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں خواتین کی شرح خواندگی ویسے بھی کم ہے جب کہ گرلز ڈگری کالج حب کی انتظامیہ طالبات کو تعلیم سے دور رکھنے کے حربے اپنا کر خواتین کی شرح ناخواندگی کو مزید بڑھانا چاہتی ہے جس کی بی ایس او کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دے۔