بلوچ فرزند قوم کی امداد کا منتظر – محمد عمران لہڑی

200

بلوچ فرزند قوم کی امداد کا منتظر

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اس بلوچ فرزند کی حالت بلوچستان کی پسماندگی اور محکومی کو دنیا کے سامنے عیاں کر رہا ہے. دنیا آج جس مقام پر پہنچی ہے وہاں ناممکن کو بھی ممکن بنا دیا گیا ہے. لیکن یہ ترقی دنیا کے محکوم اقوام سے دور رکھا گیا ہے کیونکہ کسی محکوم قوم کی زندگی بھی حکمرانوں کے مفاد کا شکار ہوکر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہوجاتا ہے. بلوچستان آج بھی دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں سالانہ سینکڑوں بچے خوراک کی کمی سے مر جاتے ہیں، عورتیں دوران زچگی موت کا شکار ہوتے ہیں، وبائی امراض کے روک تھام کا کوئی خاطر خواہ طریقہ نہیں، عام بیماریوں کے ہاتھوں لوگوں کی جان چلی جاتی ہے. ہر سال کئی نوجوان کینسر کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتے ہیں. اس 21وی صدی کے جدید ترین علاج و معالجے سے آج بھی بلوچ قوم محروم ہے.

پسماندگی کا یہ عالم کہ ایک طرف بیماری زندگیوں کو نگل رہا ہے تو دوسری طرف عوام اپنے بساط کے مطابق علاج کیلئے دوسرے صوبوں کا رخ کرتے ہیں جہاں علاج کے اخراجات ان کے بس سے باہر ہیں. مرض کے ساتھ مہنگائی بھی اس قوم کے زندگی کو نگل رہی ہے.

بھاول خان(خالد پرکانی) بھی بلوچستان کے ایک پسماندہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے. آبائی علاقہ دشت ہے وہاں سے ہجرت کرکے کوئٹہ سریاب روڈ پر سکونت اختیار کی. مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں خالد پرکانی نے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کو چھوڑ دیا. لیکن قابل اور ذہین نوجوان ادب سے انتہائی ذوق رکھتا ہے. براہوئی زبان میں کمال کا شاعری کرتا ہے. باشعور نوجوان اپنے احساسات سے قوم اور سرزمین کے دکھ درد اور تکلیف و ظلم کو محسوس کرتا ہے. تنگ دستی سے جان چھڑانے کیلیے رکشہ چلاتا تھا، پھر اپنے علاقے میں ایک چھوٹا سا دکان کھولا تاکہ زندگی کے مشکلات کچھ کم ہوجائیں لیکن بد قسمت زندگی کا آج کینسر سے مقابلہ ہو رہا ہے.

وہ پچھلے ہفتوں کراچی کے NID ہسپتال گیا، وہاں علاج کا 62 لاکھ روپے کا اسٹیمیٹ لگایا گیا. اتنی بڑی رقم خالد کے فیملی کے لیے صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے. خالد جان کی زندگی آج بلوچ قوم کے ہاتھ میں ہے. کیونکہ اب کینسر اپنے ابتدائی مراحل میں ہے جہاں مرض کا خاتمہ انتہائی ممکن و آسان ہے اگر بر وقت مالی امداد ملے تو علاج شروع ہوجائے. ویسے بلوچستان میں بھی سرمایہ دار طبقوں کے کمی نہیں ہے.

اس مشکل وقت میں بلوچستان کے صاحب حیثیت شخصیات کو چاہیئے کہ خالد جان کی زندگی کو کینسر سے آزاد کرانے میں پہل کریں. اگر آج حکومت کی امداد کا انتظار کرے پھر بہت دیر ہوجائے گی۔ اب وقت آگیاہے کہ ہم اپنے قوم دوستی کو ظاہر کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں