بلوچستان کی خونی شاہراہیں
تحریر: حمیدہ نور
دی بلوچستان پوسٹ
میڈم آج ہم نےدور کے گاؤں جاکر خواتین کو میسر غذائی اجزاء کے بارے میں بتایا ہے اور کچھ بچے کم وزن کے ساتھ ملے تھے جن کو ہم نے غذائی پیکٹس دیئے ہیں، ساتھ کے گاؤں کے 4 بچے اب نارمل وزن تک پہنچ گئے ہیں ضروری ہدایات کے ساتھ ان بچوں کو فارغ کر دیا ہے۔
یہ انتہائی پرجوش اندازمیں بتانے والی لال گل تھی جو پنجگور نیوٹریشن پروجیکٹ میں میری اسٹاف ممبر تھی۔
انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے پچھلے دنوں پنجگور سے کراچی جانے والی کوچ حادثے میں لال گل بلوچ اپنی 8 سالہ بیٹی کے ساتھ جانبحق ہوئی، لال گل بہت محنتی سوشل ورکر تھی پنجگور کے لوگ یقیناً اس خلا کو محسوس کریں گے۔
کچھ سال پہلے بھی بس حادثے میں 20-25 لوگ زندہ جل گئے تھے، جن کا تعلق پنجگور کے غریب گھرانوں سے تھا۔
ان بسوں میں سفر کرنے والے 80٪ سے زائد غریب و مفلوک الحال لوگ ہیں، یہ بسیں زیادہ تر ایرانی تیل و اشیاء کی سمگلنگ کے لیے مسافروں سے کم کرایہ لیکر ان کی آڑ میں استعمال ہوتی ہیں،
ایرانی تیل کی درآمد کے کوئی قانونی اصول ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے اسے خطرناک طریقوں سے مختلف جگہوں تک ترسیل کیا جاتا ہے اس پہ سونے پہ سہاگہ سنگل روڈ پہ بد مست ڈرائیونگ کرتے ڈرائیور اور ڈرائیونگ سکولز نہ ہونے اور ٹریفک کے بے اصولیوں سے ، آئے روز قیمتی جانیں گنوا رہے ہیں۔
پنجگور بلوچستان کا وہ ضلع ہے جہاں کا تعلیمی نظام بہتر ہونے کی وجہ سے آج بلوچستان کی بیوروکریسی، میڈیکل ہر ادارے کی انتظامی سیٹوں پہ پنجگور کے ہی لوگ ہونے کے باوجود آج بھی پنجگور کے حالات بد تر ہے۔
عوام کے لیے نہ کبھی صوبائی حکومت نے سوچا ہے نہ کبھی وفاق کی جانب سے کوئی رحم کیا گیا۔ اعلیٰ عہدیداروں نے پنجگور کے کوٹے کا تو حق سمجھ کے استعمال کیا لیکن اپنی عوام اور علاقے کی بہبود کے لیے کوئی زحمت گوارا نہیں کی جس کا خمیازہ عورتوں و بچوں کی جلتی لاشیں، چیتھڑوں میں ملنے والے اعضاء ہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں