بی این ایم ماہ جنوری 2021 کا تفصیلی رپورٹ جاری. 50سے زائدآپریشن، فوج وفوجی پراکیسوں کے ہاتھوں ہزارہ سمیت 14افراد شہید،22 افرادلاپتہ، درجنوں گھر اور وسیع جنگلات نذرآتش
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے جنوری 2021 کا تفصیلی رپورٹ جاری کرتے کہا ہے کہ اس مہینے بھی پاکستانی فوج نے بلوچستان کے طول و عرض میں 50 سے زائد آپریشن کیے اور چھاپے مارے۔ ان آپریشنوں میں زمینی فوج کو ہمیشہ کی طرح جنگی ہیلی کاپٹروں اور مقامی ڈیتھ سکواڈز کی کمک حاصل تھی۔ جنوری کے مہینے میں پاکستانی فوج نے تین افراد کو قتل کیا۔ ان میں کیچ میں باپ بیٹے کو پاکستانی فورس نارکوٹکس نے فائرنگ کرکے قتل کیا۔ ایک سرمچارجھڑپ میں شہید ہوئے۔ مچھ کے کوئلہ کانو ں میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد پاکستانی پراکسیوں نے قتل کردیا۔ مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج نے 22 افراد کو حراست میں لے کرلاپتہ کر دیا۔ خضدار، پنجگور، نوشکی، دالبندین اور پسنی سے 5 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جن کے ہلاکت کی محرکات معلوم نہ ہوسکے۔ فوج نے 2 درجن سے زائد گھروں کو نذرآتش کیا۔ کیچ کے علاقے گورکوپ کے مختلف ندیوں میں جنگلات کے وسیع سلسلے کو نذرآتش کردیا گیا۔ اسی مہینے پاکستانی فوج کے زندانوں سے 28 افراد بازیاب بھی ہوئے۔ ان میں سے کئی لوگ سالوں سے پاکستانی فوج کے زندانوں میں اذیت سہہ رہے تھے۔
دل مراد بلوچ نے کہا بلوچستان مکمل طور پر ایک وار زون بن چکا ہے جہاں پاکستانی فوج، فوج کے آلہ کار ڈیتھ سکواڈز وسیع پیمانے پر بلوچ نسل کشی اور دیگر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرتا جہاں پاکستانی فوج کے آپریشن اور انسانی حقوق کی پامالیاں نہ ہوتی ہوں۔
انہوں نے کہا اس مہینے کے آغاز میں بولان، شاہرگ اور کیچ کے علاقے گورکوپ اور بلیدہ پاکستانی فوج کے خاص نشانے پر رہے۔ بولان، شاہرگ اور گرد و نواح میں گزشتہ مہینے سے آپریشن جاری تھا جس میں مزید شدت لائی گئی جبکہ گورکوپ میں جنوری کے اوائل میں آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ جمک سے لے کر گورکوپ کے پہاڑی سلسلے میں آپریشن مہینے کے آخر تک جاری رہا۔ گورکوپ میں پاکستانی فوج نے سالاچ، سور، رنگاں، سیاہ ماری، گرئے بُن اور ناگ کے علاقے اور گردونواح میں نیک سال، براہیم، جمعہ، صالح محمد سمیت متعدد لوگوں کی دو درجن سے زائد گھروں نذر آتش کردیا گیا۔ مختلف مقامات پر تین نئی چوکیاں قائم کی گئیں۔ سری کلگ میں کلگ کؤر، گورکوپ میں دمس کؤر اور سری گورکوپ اور جنگلاآباد میں ندیوں میں پیش (مزری)کے وسیع جنگلات کے وسیع جنگلات کو نذرآتش کردیئے گئے۔
دل مراد بلوچ نے کہا بلوچستان میں جہاں بلوچ نسل کشی اور دیگر جنگی جرائم عروج پر ہیں وہاں پاکستانی فوج جنگلات اور جنگلی حیات کوبھی نہیں بخش رہا۔ اس سے قبل پاکستانی فوج دشت، مشکئے، تنک، جھاؤ اور سراوان کے مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر جنگلات کونذرآتش کرچکا ہے۔ اس مہینے گورکو پ میں پیش (مزری)اور دیگر درختوں کے جنگلات کے بڑے سلسلے کو پاکستانی فوج نے جلا ڈالا اور گزشتہ مہینے زامران میں آپریشن کے دوران پانی کے چشموں میں زہر ملانے سے سیکڑوں پہاڑی بھیڑ اور بکریاں ہلاک ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا پاکستان کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ جب بلوچ قومی مسئلے یا پاکستانی بربریت پر عالمی رائے عامہ متوجہ ہوتا ہے تو پاکستان اسے کاؤنٹرکرنے کے لئے ایسی بربریت کا مظاہرہ کرتاہے جس سے توجہ کو تقسیم کیا جائے۔ جب پاکستانی خفیہ اداروں نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں بی این ایم کے لیڈر اور بی ایس او کے سابقہ چیئرپرسن بانک لمہ کریمہ بلوچ کو قتل کرکے شہید کیا تو نہ صرف بلوچ کی جانب سے شدید ردعمل آیا بلکہ خطے کے دیگر مظلوم اقوام نے بھی اس عمل کی شدید مذمت کی اور بلوچ قوم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ بین الاقوامی میڈیا میں اس بارے میں زبردست بحث سامنے آئی۔ اس عمل کو کاؤنٹرکرنے کے لئے پاکستان نے اپنے کرایہ دارپراکسیوں کے ذریعے مچ میں ہزارہ مزدوروں کو نشانہ بنایا۔ ایک ہی دن میں 11معصوم لوگوں کو درندوں نے ذبح کردیا گیا۔ وقتی طور پر پاکستان لوگوں کی توجہ تقسیم کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی لیکن قومی جدوجہد کو ایسے بہیمانہ اور جنگی جرائم کے ذریعے قطعا ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ پاکستان ریاستی سطح پر ہمیشہ بلوچستان میں جاری فوجی بربریت سے انکاری رہا ہے لیکن کئی مواقع پر ریاستی اہلکار سمیت کٹھ پتلیاں اقرارکرتے آئے ہیں کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس مہینے کٹھ پتلی صوبائی وزیر داخلہ نے اعلان نے کیا کہ بلوچستان میں آپریشن کیاجائے گا، حالانکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن گزشتہ دو ہائیوں سے جاری ہیں لیکن پاکستانی فوج اور ریاستی دیگر اختیار دار ہمیشہ انکار کرتے رہے ہیں۔ بانک کریمہ کے جنازے میں شرکت کے لئے فوجی اہلکارمیگافون پر اعلان کرتے رہے کہ آگے آپریشن جاری ہے آپ لوگوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سابق پاکستانی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، سابق صوبائی ترجمان اور موجودہ سینیٹر انوارالحق کاکڑ، سابق کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی سمیت مختلف ریاستی اختیار دارمختلف مواقع پر بلوچستان میں فوجی آپریشن کی تصدیق اور لوگوں کو اٹھانے کا اعتراف کرچکے ہیں۔
دل مراد بلوچ نے کہا بلوچستان میں پاکستانی حیوانیت و بربریت نے باقاعدہ ایک انسانی المیہ جنم دیا ہے جس کی شدت میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر جن جن تنظیموں کا قیام انسانی حقوق کی پامالیوں یا قومی مسئلوں کے حل کے لئے عمل میں لائی گئی ہے وہ ادارے اور تنظیم بلوچستان میں پاکستانی جنگی جرائم سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ بلوچ یہ مشکل دور گزارکر آگے بڑھے گا لیکن بلوچ انسانی المیہ اوران اداروں کی خاموشی ہمیشہ کے لئے ان اداروں کی وجود پرسوالیہ نشان کی صورت میں موجود رہے گا۔
ذیل میں پاکستانی فوج،خفیہ اداروں،فوج کے آلہ کارڈیتھ سکواڈپراکسیوں کے جنگی جرائم کاتفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
یکم جنوری بولان کے اکثر علاقوں میں گذشتہ مہینے سے جاری پاکستانی فوج کا زمینی و فضائی آپریشن جاری ہے جس کے نتیجے میں اب تک مختلف علاقوں سے متعدد افراد گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوچکے ہیں۔کئی علاقے تاحال فورسز کے محاصرے میں ہیں جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو آمد و رفت کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بالخصوص مریضوں جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں علاقے سے باہر علاج کے لئے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
پنجگور کے علاقے کیلکور میں گزشتہ مہینے سے جاری فوجی آپریشن میں شدت، پاکستانی فوج نے لوگوں کو علاقے خالی کرنے کی دھمکی،علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی نیچی پروازیں، مکینوں میں خوف حراس،اس سے قبل بھی پاکستانی فوج مختلف پہاڑی علاقوں میں ہزاروں لوگوں کو علاقہ بدرکرچکا ہے۔
پاکستانی فوج نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے اوچ میں چھاپہ مارکر لٹو ولد کمو بگٹی اور لالو ولد مٹا بگٹی کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
دو جنوری پنجگور کے علاقے گرمکان میں پاکستانی فوج کا بلوچ بابر یوسف اور حاجی عبدالحمید کے گھروں پر چھاپہ،چھاپے کے دوران چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا اور خواتین اور بچوں بیجا تشدد کے ساتھ ساتھ انھیں ہراساں بھی کیا گیا۔
تیین جنوری مچھ میں کوئلہ فیلڈ میں پاکستانی فوج کے پراکسیوں نے گیارہ ہزارہ کانکنوں کوقتل کردیا۔
پنجگورکے علاقے کیل کؤرمیں جاری آپریشن میں مزید شدت،آج پاکستانی فوج نے کیلکور کے علاقے خدال، کاشت، بیرونٹ، کرکی، ہالی ریک، پلیمک، کلیڑی،زرد اورسیتوک میں نہ صرف گھرگھرتلاشی لی جارہی ہے اور گھروں کو تشددکا نشانہ بنایاجارہاہے بلکہ کاشت کے پہاڑی علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی ہے۔
چارجنوریپنجگورمیں پاکستانی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران سرمچار گنج بخش عرف بہار بلوچ شہید ہوگئے –عظیم قربانی پر ہم انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔
نوشکی کے علاقے ڈاک قبول کے قریب ڈھڈر سے ایک نوجوان کی لاش ملی ہے جسے شناخت کے لئے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
لاش کی اطلاع مقامی افراد کی جانب سے انتظامیہ کو ملی تھی جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاش کو اپنے تحویل میں لیکر سول اسپتال نوشکی منتقل کردیا ہے۔محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
پنجگور کے رہائشی طالب مکرم اکبر کو پاکستانی فوج نے کوئٹہ کے علاقے باروری روڈ ۔
سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا
پانچ جنوریڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فوج نے ایک آپریشن کے دوران چھ افراد بہارو ولد پائند بگٹی، کھنڈو ولد باری بگٹی، علی مراد ولد میندو بگٹی، لیاقت ولد یارا بگٹی، حیدر ولد یارا بگٹی اور انگلی ولد پھوگو بگٹی کوحراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔فوج نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے اُچ میں آپریشن کے دوران خواتین اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
چھ جنوری سوراب سے پاکستانی فوج نے محمد شریف نامی بزرگ شخص کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے جبکہ گذشتہ روز پاکستانی فوج نے اس کی دکان پر چھاپہ مارکر اس کے جوانسال فرزند سمیع اللہ کو بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔تاہم بعد ازاں دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔
آٹھ جنوری دالبندین کے قریب گذشتہ دنوں لاپتہ ہونے والے ایک نوجوان کی لاش ملی ہے۔نوجوان چار دن پہلے گھر سے پکنک منانے کیلئے نکلا تھا اس کے بعد واپس گھر نہیں پہنچا، آج پہاڑی علاقے سے ان کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ لاش کی شناخت دالبندین کے رہائشی محمد انور کے نام سے ہوئی ہے۔ہلاکت کے محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
پنجگور کے علاقے بونستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے بی این ایم پنجگورزون کے سابق صدر ایوب اسرار، رحیم داد اور دیگر کے گھروں میں گھس کر عورتوں کو زد و کوب کیا اور لوگوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔
نوجنوری سترہ سالہ بشیر احمد جو انٹرنیشل پبلک اسکول ڈھوک کالا خان روالپنڈی میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہے اور خضدار کا رہائشی ہے دو دن قبل لاپتہ ہوگئے ہیں، تاہم وہ دن بعد کراچی سے منظر عام پہ آگئے۔
پنجگورکے خدابادان پاکستانی فوج کابلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کے گھر پر چھاپہ،اہلخانہ پرذہنی تشدد۔
دس جنوری پنجگورکے علاقے تسپ میں پاکستانی فوج کامیں شاعر سرور فراز کے گھر پر چھاپہ،اہلخانہ پرتشدد۔
گیارہ جنوریپنجگور کے علاقے پروم میں کاروباری شخصیت ملک میران کے گھر پرپاکستانی فوج نے چھاپہ لگاکر لاکھوں روپے اوردگرقیمتی اشیالوٹ لئے۔
بارہ جنوری کیچ کے علاقے تمپ سرنکن سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فوج نے بلوچ یکجہتی کے سرگرم کارکن جلال ولد خیر محمد کو حب چوکی کے مقام پر چیک پوسٹ سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
تیرہ جنوری خضدارکے علاقے گریشہ زباد سے لاپتہ طالب علم محمد اعظم ولد داؤد پاکستانی فورسز کے اذیت خانوں سے رہا ہو گر گھر پہنچ گیا ہے۔طالب علم محمد اعظم 13 جون 2020 کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیاتھا۔محمد اعظم کے ساتھ اور بھی بہت سے طالب علم پاکستان فوج نے گرفتار کرکے لاپتہ کئے تھے۔جنہیں 2020 کے عید الاضحٰی کے ایک دن پہلے رہا کیا گیا تھا لیکن محمد اعظم ولد داؤد پاکستانی فورسز کے اذیت خانوں میں تھا۔دوران حراست شدیدتشدد سے محمد اعظم کی صحت گر چکی ہے اور وہ ذہنی توازن کھوچکا ہے۔
کوئٹہ سے پاکستانی فوج نے طالب علم بلوچ خان ہجوانی کوحراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
کیچ کے علاقے تمپ سرنکن سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ، بلوچ یکجہتی کے سرگرم کارکن جلال ولد خیر محمد حراست سے بازیاب ہوکرگھرپہنچ گیا۔
چودہ جنوریخاران کے باشندے زبیر احمد ولد محمد اکبر محمد حسنی کا لاش خضدار سے برآمد، زبیر احمد دو روز قبل حب چوکی سے خضدار آیا تھا خاندانی ذرائع کے مطابق وہ دو دن سے لاپتہ تھا۔اسپتال ذرائع کے مطابق زبیر کا قتل گلہ کاٹ کر کیا گیا ہے۔تاہم قتل کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے۔
کیچ کے علاقے گورکوپ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کاآغاز،گُدر،بکسراں سمیت گردوانوح میں فوجی دستے آپریشن کررہے ہیں،گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔
کیچ کے علاقے کوہاڈ میں پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر شیر جان ولد تاج محمد اور عثمان کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
واشک کے علاقے بیسیمہ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں ایک سال قبل لاپتہ ہونے والے علی بخش ولد برات بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
پندرہ جنوریایک سال قبل پاکستانی فوج کے ہاتھوں مند بلو سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ نوجوان نواز بلوچ ولد دوستین بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
سترہ جنوریکیچ کے علاقے گورکوپ میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری،صالح محمدولد براہیم سکنہ رنگاں گورکوپ حراست بعد لاپتہ،آج فوج نے سالاچ،سور،رنگاں،سیاہ ماری،گرئے بُن اورناگ نامی علاقے اور گردونواح میں نیکسال،براہیم،جمعہ، صالح محمد سمیت متعددلوگوں کی دو درجن سے زائد گھروں نذر آتش کردیا،ناگ،بکسراں،کروچی،سالاچ،ہوکینی میں 5نئے چوکیاں قائم۔جمک،لنجی،سہررودی،نیامی کلگ،سری کلگ میں کلگ کؤر،گورکوپ میں دمس کؤر،گورکوپ اورجنگلاآبادمیں ندیوں میں پیش (مزری)کے وسیع جنگلات کو نذرآتش کردیا۔ان جنگلات نہ صرف ماحول اورایکوسسٹم کا لازمی جزو ہیں بلکہ لوگوں کی زندگیاں ان بڑی حدتک انحصارکرتاہے۔
اٹھارہ جنوریکیچ کے علاقے گورکوپ میں آپریشن جاری،دو روز قبل گورکوپ کے علاقے جتاندر سے عیسٰی ولد سردو نامی مقامی چرواہا کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
آواران کے علاقے جھاؤ سے یکم اپریل 2019 کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار و لاپتہ ہونے والے سدیر ولد خیر محمد، نادل ولد خیر محمد، زبیر احمد ولد محمد ہاشم سکنہ کوہڑوجھاؤاور20 جون 2018کوحراست بعد لاپتہ ہونے والے ناصر حسین سکنہ لنجارجھاؤ حب چوکی لسبیلہ سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
کیچ کے علاقے بلیدہ کے جاڑین اورزامران میں عبدوئی،پگنزان میں پاکستانی زمینی فوج کاآپریشن،لوگوں پر تشدد،تیل کے کاروبار پرسے منسلک لوگوں خاص طورپرنشانہ بن رہے ہیں اورجاڈین سمیت گردونواح شدید فی محاصرے میں ہیں،زمینی فوج کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک بھی حاصل ہے،کئی مقامات پر ہیلی کاپٹرں نے شیلنگ کی ہے۔
انیس جنوریکیچ میں سرکاری ڈیتھ سکواڈنے بی ایس اوکے سابق جنرل سیکریٹری زبیر بلوچ کے گھر دھاوا بول دیا اوراہلخانہ کو تشددکا نشانہ بنایا۔
بائیس جنوری پاکستانی فوج کے ہاتھوں 2جون 2020کوکراچی سے لاپتہ ہونے والے اورنگزیب ولد سراج احمد سکنہ پنجگور بازیاب ہوگئے۔
مچھ سے 2 مہینے قبل پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے خیر محمد مری بازیاب ہوگئے۔
گورکوپ سے 19جنوری کوپاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ صالح محمدولد براہیم سکنہ رنگاں گورکوپ بازیاب ہوگئے۔
پچیس جنوری پنجگور کے علاقے تسپ کے علاقے گومازین ڈیم سے اسد ولد منیرنامی شخص کالاش برآمد، تاہم قتل کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے۔
کوہلو کے علاقے تمبو میں لیویز کیو آر ایف نے رسالدار شیر محمد مری کی سربراہی میں کارروائی کرتے ہوئے 4 افراد کو گرفتار کرکے بعد میں لاپتہ کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق لیویز نے گذشتہ روز بلوچستان کے علاقے کوہلو تمبو وزیر ہان شہر میں چھاپہ مارکر شیرانی قبیلے کے 4 افراد جان میر، شاہ میر، سہراب خان اور افغان کو گرفتار کرکے بعدازاں خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کیے ہیں تا حال وہ لاپتہ ہیں۔
چھبیس جنوری بولان اور ہرنائی کے مختلف علاقوں بزگر، جمبرو، کمان اور گردنواح میں پاکستانی فوج کاآپریشن جاری ہے،زمینی فوج کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک بھی حاصل ہے،جنگی ہیلی کاپٹروں نے مختلف مقامات پرشدید شیلنگ کی ہے۔
پسنی سے ایک شخص کی لاش ملی ہے۔شناخت اورہلاکت کی وجوہات معلوم نہ ہوسکے۔
ستائیس جنوریبولان میں جاری پاکستانی فوج کے جاری آپریشن میں مزید شدت لائی گئی ہے آج فوجی آپریشن کو بزگر، اْچ کمان، سجاول اور گردونواح کے علاقوں میں وسعت دی گئی ہے۔
کیچ کے علاقے گورکوپ میں شروع ہونے والی فوجی آپریشن تاحال جاری ہے۔تازہ دم فوجی دستے علاقے میں پہنچ رہے ہیں۔پہاڑی سلسلوں میں پاکستانی فوج مسلسل مارٹرگولے فائر کررہاہے۔
اٹھائیس جنوری پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے نو افراد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔جن میں 18 نومبر 2019 کو جت دشت سے بلوچی شاعر عبید عارف،25 نومبر 2018 کو پسنی سے لاپتہ امین شکاری، ڈھائی سال قبل دشت مزن بند،سے امام اسحاق،عرفان امام بخش سکنہ بلنگور،واحد داد شاہ سکنہ سامی گلگ اور منظور حسین سکنہ میناز بلیدہ، 20 ستمبر 2018 کو مسلم آباد کوئٹہ سے لاپتہ شمس الدین بنگلزئی ولد قمرالدین،جون 2020 کو پنجگور سے لاپتہ رحیم ولد عزیز اور کراچی سے 2017 سے لاپتہ عمران سدھیر سکنہ تربت شامل ہیں۔
انتیس جنوری بلوچستان کے علاقے پاکستانی فوج کے لاپتہ خاران سے 7سال قبل خاران سے لاپتہ بابو حسن جان،کیچ کے علاقے آپسر سے ایک سال 8مہینے سے لاپتہ شریف ولدسلیمان، گلاب ولدعلی بخش اورکوئٹہ سے 2سال لاپتہ ثناء اللہ سمالانی بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے کوہاڈ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ دو نوجوان عزت ولد خورشید اور مہران ولد رسول بخش بازیاب ہوکرگھرپہنچ گئے۔
تیس جنوری منگچر سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا نوجوان رب نواز آٹھ سال بعد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔ربنواز لانگو کو 13 جنوری 2013 کو پاکستانی فورسز نے اس وقت حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جب منگچر کے خلق مجید شہید میں فورسز کی جانب سے ایک بڑے پیمانے کی آپریشن کی گئی۔مذکورہ آپریشن میں یونس لانگو جانبحق ہوا تھا جبکہ فورسز نے سات افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن میں سے باقی افراد بعدازاں مختلف اوقات میں رہا ہوگئے لیکن ایک شخص ابھی تک فوج کے حراست میں ہے۔
کراچی،انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اورسوشل ایکٹوسٹ سعیدسلطان کو صبح 4 بجے رینجرز نے گُل محمدی لین گلی نمبر 25 لیاری میں ایک گھر پر دھاوا بول کرحراست میں لے کرنامعلوم مقام منتقل کردیا،سلطان سعید کا تعلق تحصیل تُمپ کے گاؤں بالیچاہ سے ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم تھے۔
اکتیس جنوری کیچ کے علاقے تربت سے بلیدہ جاتے ہوئے پاکستانی فورس نارکوٹکس نے فائرنگ کرکے محمد صالح اورنوجوان بیٹے کوقتل کردیا۔ان کا تعلق کسوئی زامران سے ہے