بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک انسانی بحران جنم لے چکا ہے اور اس کی جڑیں ہماری غلامی اور پاکستان کی انسانی، قومی اور اخلاقی اقدار سے محرومی میں پیوست ہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ریاست کی ہماری ماں، بہن، بیٹی اور بلوچ فرزندوں کے ساتھ سلوک ہماری غلامانہ حیثیت اور پاکستان کی قبضہ گیریت کو مزید واضح کرتے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان تسلسل کے ساتھ نہ صرف بلوچ فرزندوں کو اٹھاکر زندانوں میں قید اور انتہائی وحشت و بربریت سے تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے بلکہ تراشیدہ اصطلاحات کے ذریعے ریاستی زندانوں میں قید بلوچ فرزندوں کے بارے میں زورو شور سے ”لاپتہ افراد“ کا اصطلاح استعمال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ لوگ ازخود گم ہوگئے ہیں یا انہیں کسی ایسی قوت نے لاپتہ کردیا ہے جس کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ ریاستی اصطلاحات سیاسی اسیروں کے کیس کو پیچیدہ بنانے یا خود کو بری الذمہ کرنے کی حیلوں کا ایک کڑی ہے۔ حقیقت میں بلوچ لاپتہ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے زندانوں میں غیرقانونی قید ہیں۔
انہوں نے کہا ریاست پاکستان ایک بے آئین اور غیرفطری ریاست ہے جسے فوج اپنے عسکری ومعاشی مفادات کے لیے استعمال کررہا ہے اور نام نہاد جمہوریت، عدالتی نظام اور آزاد صحافت محض نام کے حد تک وجود رکھتے ہیں لیکن بلوچ قوم یا دیگر مظلوموں کے لئے یہ بھی ہمیشہ فوج کے صف میں کھڑی نظر آتے ہیں ستم یہ کہ پاکستان کے ہاتھوں بلوچوں کی جبری گمشدگی جیسے جنگی جرائم کے ذریعے اپنے آئین کو پائمال کرتا رہا ہے لیکن عدالت و صحافت اس ضمن میں خاموش یا زیادہ تر پاکستانی فوجی بیانئے کی دفاع و تشہیر کررہے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ایک جانب اسلام آباد میں سیاسی اسیروں کے لئے بلوچ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں احتجاج کررہی ہیں تو پاکستان کے وفاقی وزیر کا تضحیک آمیز بیان سامنے آتا ہے کہ بلوچ پنجاب میں احتجاج کرسکتے ہیں جنہیں کوئی گولی نہیں مارتا، لیکن بلوچستان میں پنجابیوں کو شناخت کرکے گولی ماری جاتی ہے۔ پاکستانی وزیر اصل میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے ایک جزو یعنی مسلح جدوجہد میں مارے گئے فوجیوں کے عوض بلوچ اٹھائے جاتے ہیں لیکن پنجاب پھر بھی لواحقین کو احتجاج کرنے کا حق دے رہا ہے اور ایک عظیم احسان ہے غلام بلوچ قوم پر، حالانکہ چوہدری جس پاکستان کے وزیر ہے اس کے آئین کے مطابق اسلام آباد پنجاب نہیں بلکہ پاکستان کا دارالحکومت ہے جس میں ریاست کے شہری بشمول غلام احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا آج کے دن دس سال قبل توتک میں ایک خونی آپریشن کے ذریعے 2 افراد نعیم اور یحیٰی قتل جبکہ محمد رحیم خان، عتیق الرحمٰن، خلیل الرحمٰن، وسیم، ندیم، آفتاب، فدا، ڈاکٹر ظفر، آصف، عمران، ارشاد، مقصود، ڈاکٹر طاہر سمیت 17 افراد کو فوج نے اٹھاکر غیر قانونی و غیرانسانی زندانوں میں قید کرکے جبری گمشدگی کا شکار بنادیا جن میں ایک نوجوان مقصود ایک نوجوان کو 16 جولائی 2011ء میں قتل کرکے اس کی مسخ لاش پھینک دی جب کہ دیگر سولہ افراد کی کوئی خبر نہیں کہ وہ ابھی تک ریاستی عقوبت خانوں میں مقید ہیں یا انہیں اسی علاقے سے 25 جنوری 2014ء میں دریافت ہونے والے اجتماعی قبروں کی نظر کیا گیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا امریکہ، عالمی طاقتیں اپنی مفادات و معاملات کے لئے پاکستان پر بھروسہ نہیں کرسکتے لیکن انہیں بلوچ قوم پر پاکستان کی سترسالہ مظالم اور نازی سلوک نظر نہیں آتا۔ اگر اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں نے پاکستانی وحشت و بربریت پر اسی طرح آنکھیں موند لیں تو پاکستان کے ہاتھوں بلوچ سمیت مظلوم قوموں کی نسل کشی میں نئی شدت آتی رہے گی اور وقت گزرجانے کے بعد اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکے گا۔