پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین ایک ہفتے سے احتجاج کررہے ہیں، لواحقین گذشتہ روز سے ڈی چوک پر دھرنے پر ہیں۔ آج مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے دھرنے میں شرکت کی اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے مطالبات کی حمایت کی۔
مریم نواز نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ان کے پیاروں کے گمشدگی کے واقعات اور ان کے بعد کے حالات کے حوالے سے گفتگو کی۔
مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ مجھے بلوچستان میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ جبری لاپتہ ہیں ان میں بیشتر لوگ بے قصور ہیں اور انہیں غلطی سے اٹھایا گیا ہے۔ جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے انہیں عدالت میں سزا دی جائے اور جو لوگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ان کے لواحقین کو ان کے بارے میں معلوم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کی حکومت سینٹ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاسکتی ہے تو لاپتہ افراد کے مسئلے پر بھی سپریم کورٹ میں چلی جائے۔
انہوں نے کہا حکمرانوں کے کچھ مسائل ہوتے ہیں، مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن ایسی حکومت کا کوئی فائدہ نہیں جس میں آپ اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتے۔ عمران خان سلیکٹڈ ہیں مگر یہ ان کا فرض ہے کہ ان لوگوں سے ملاقات کرکے انہیں تسلی دے اگر خود نہیں آسکتے تو اپنے وزیر کو بھیجیں اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو اپنے وزراء کو لاپتہ افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے باز رکھے۔
انہوں نے فواد چوہدری کے ایک ٹویٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر شدید تنقید کی اور کہا مظلوموں کا کوئی صوبہ نہیں، بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخواہ اور پنجاب کے مظلوموں کا کوئی صوبہ نہیں۔
جب مریم نواز سے پوچھا گیا کہ ان کی دورحکومت میں بھی جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ موجود تھا تب انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا، تو انہوں نے کہا مجھے اس بارے میں زیادہ نہیں پتا میں نے چیزیں دور سے دیکھی ہیں حکمرانوں کے کچھ مسائل ہوتے ہیں لیکن میں اپنی بات کو دہراتی ہوں اور یہ میں اپنی پارٹی کے لیے بھی کہہ رہی ہوں کہ جب آپ اپنے فرائض پورے نہیں کرسکتے تو اس حکومت کا کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے کہا اس وقت میں جبری لاپتہ افراد لواحقین کے لیے ہمدردی کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی، میں یہاں پر صرف ان کے ساتھ ہمدردی کرنے اور اظہار یکجہتی کے لیے آئی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خود بھی رشتوں سے بندھے ہوئے ہیں ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے، میں آرمی چیف اور انٹلی جنس چیف سے بھی درخواست کرتی ہوں کہ یقینا ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں گے لیکن جبری لاپتہ افراد کے معاملے کو انسانی بنیاد پر دیکھیں اور ان کو بازیاب کریں۔
اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے مریم نواز کو اپنے جبری لاپتہ رشتہ داروں کے حوالے سے بتایا اور کہا کہ انہیں بتایا جائے کہ جبری لاپتہ افراد کی بیویاں بیوہ ہوچکی ہیں یا نہیں۔
اس موقع پر وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے لواحقین کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہے۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ ہم ایک ہفتے سے یہاں لاوارثوں کی طرح بیٹھے ہیں لیکن ہمیں کوئی نہیں پوچھ رہا کہ آپ بلوچستان سے یہاں کیوں آئی ہیں۔ ان ماوں کی حالت دیکھے جو پوری رات سو نہیں سکتی ہیں، جب کھڑی ہوتی ہے تو بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا عمران خان نے بیان دیا تھا کہ ملک میں کوئی شخص لاپتہ نہیں ہوگا لیکن ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ سمی دین نے کہا کہ یہاں عدالتیں، کمیشن، حکومتی اراکین کہتے ہیں کہ ہم کوششیں کررہے ہیں یا ہمارے بس میں کچھ نہیں تو ہم کہاں جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان یہاں بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین سے آخر ملاقات کرے اور انہیں ان کے پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی کرائے۔ انہوں نے کہ ہم تمام سیاسی پارٹیوں سمیت سماجی تنظیموں، طلباء اور دیگر افراد سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ یہاں آکر ہمارا ساتھ دیں۔