پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین ایک ہفتے سے احتجاج کررہے ہیں۔ گذشتہ رات لواحقین نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر گزاری جبکہ آج دوسرے روز احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین نے سردی میں آگ جلاکر گذشتہ رات گزاری، اس موقع رات گئے پولیس اور دیگر اداروں کی بھاری نفری بھی ڈی چوک پر پہنچ گئی تھی۔
مظاہرین میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جن میں بلوچ لاپتہ افراد کے عمر رسیدہ مائیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
گذشتہ روز لواحقین نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ڈی چوک تک احتجاجی ریلی نکالی اور دھرنا دیا۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی تاہم وہ رکاوٹیں عبور کر کے ڈی چوک پہنچے اور دھرنا دیا، جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین اور مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مظاہرین سے خطاب کیا۔
آج دوسرے روز ڈی چوک پر دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان سے ملاقات کرکے انہیں ان کے پیاروں کے بازیابی کے حوالے سے یقین دہانی کرائے تاہم وزیر اعظم عمران خان سمیت کسی حکومتی رکن نے لواحقین سے تاحال ملاقات نہیں کی ہے۔
احتجاجی مظاہرے کی رہنمائی کرنے والی سمی دین بلوچ نے اپنے ایک پیغام میں بلوچستان اور دیگر علاقوں کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیلئے اپنے شہروں میں مظاہروں کا انعقاد کریں۔
دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے اسلام آباد میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے آج دوپہر 12 بجے سے لیکر شام 4 بجے تک کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کا اعلان کیا ہے۔