جبری طور پر لاپتہ اسد اللہ کے والدہ نے اپیل کی ہے کہ میرے بیٹے کو بازیاب کیا جائے اور اگر وہ ریاست کا مجرم ہے تو اسے اپنے عدالتوں میں پیش کرے۔
لواحقین کے مطابق اسد اللہ ولد ناصر علی کو یکم جولائی 2019 کو نوکین کہن مند سے رات تین بجے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے گھر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔
اسد اللہ کے بازیابی کے لیے لواحقین کی جانب سے عدالت سے رجوع کرنے سمیت احتجاج کیا گیا لیکن وہ تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہے۔
خیال رہے بلوچستان کے مختلف علاقوں گذشتہ دنوں بیس کے قریب لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں تاہم دوسری جانب جبری گمشدگیوں کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
دریں اثناء وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے 10 جولائی 2013 کو ضلع بارکھان کے علاقے مری بوھڑی سے لاپتہ علم خان مری اور شاہ میر مری، 13 مارچ 2019 کو نوشکی احمد وال سے لاپتہ لیویز اہلکار عبدالغنی ولد رسول بخش، 3 جولائی 2015 کو ٹی ٹی سی کالونی گوادر سے لاپتہ محمد عظیم ولد دوست محمد، 29 نومبر 2019 کو اورماڑہ گوادر سے لاپتہ نود داد ولد عرض محمد، 5 دسمبر 2012 کو مشن روڑ کوئٹہ سے لاپتہ گدو بگٹی ولد دلدار بگٹی، 26 اگست 2016 کو خاران سے لاپتہ بلوچ طالب علم رحیم الدین ولد شاہنواز، 23 مئی 2013 کو بلوچستان کے علاقے حب چوکی سے لاپتہ عبدالوھاب، 3 مارچ 2015 کو ماشکیل، ضلع واشک سے لاپتہ وزیراحمد ریکی کو کو بازیاب کرنے کی اپیل کی ہے۔
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے مطابق لاپتہ افراد کے بازیابی خوش آئند عمل ہے لیکن دیگر افراد کے رہائی کو بھی یقینی بنایا جائے۔