ہم آج جینے کی نہیں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں – پروفیسر منظور بلوچ

466

انسانی سماج میں دو چیزیں ایسی ہیں جن میں تبدیلی کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے ایک انسانی عقائد یعنی مذہب اور دوسرا معاشرتی اقدار منظور بلوچ کا بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کوئٹہ زون کے اسٹڈی سرکل میں طلباء سے خطاب۔

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کوئٹہ زون کا اسٹدی سرکل بروز ہفتہ 09 جنوری 2021 کو زیر صدارت زونل جنرل سیکرٹری نذر مری منعقد کیا گیا جس میں پروفیسر منظور بلوچ بطور اسپیکر مدعو کیے گئے، سرکل کا موضوع “نیشنلزم اور نوآبادیات” تھا۔

طلباء سرکل سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر منظور بلوچ کا کہنا تھا کہ انسان جس سماج میں جنم لیتا ہے اس کے لیے ایک مہر و محبت دائمی قائم رہتا ہے اور یہ محبت نہ صرف اس زمین سے بلکہ اس زمین پہ موجود تر مخلوق خدا سے انسان کو ایک فطری مہر ہو جاتا ہے اور آسان لفظوں میں اگر کہا جائے تو یہی مہر ہی نیشنلزم کا بنیاد ہے یوں تو فکری اور نظریاتی حوالے سے نیشنلزم صنعتی انقلاب کے بعد سامنے آیا ہے لیکن قوم آج سے ہزاوروں سال پہلے موجود تھے انسانی سماج میں دو چیزیں ایسی ہیں جن میں تبدیلی کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے ایک انسانی عقائد یعنی مذہب اور دوسرا معاشرتی اقدار-

انہوں نے کہا دنیا کی قدیم تہذیبوں کی گزرگاہ مہرگڑھ جہاں آج کا بلوچستان ہے تہذیبی لحاظ سے ہزاروں سال قدیم ہے اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب جہاں آج کرد آباد ہیں بلوچ اور کردوں کی کوئی نہ کوئی رشتہ ہوگی معاشی معاشرتی سیاسی لیکن ہم نے آج تک اپنے تہذیبی تعلقات کا کھوج نہیں لگایا اور یہی وجہ ہے کہ جب مختلف ادوار میں یہاں نوآبادکار آئے انہوں نے بلوچ سماج کے دو اہم چیزوں کو کنٹرول کرنا چاہا ایک سردار جو بلوچ سماج کا مرکز تھا سردار ہم ہی سے منتخب ہوتا تھا جس کے اپنے شرائط و ضوابط تھے جمہوری اصولوں کے مطابق سردار گچین کیا جاتا تھا اور دوسرا چیز بلوچوں کی اقدار بلوچوں میں باہوٹ رکھنا دوسروں کی مال و مڈی پہ قبضہ نہ کرنا جنگوں میں عورتوں اور بچوں کو استثنا دینا ہمارے اقدر تھے لیکن جب نوآبادکار آئے انہوں نے ان دونوں چیزوں کو مسخ کرنا شروع کیا سردار کو مال و زر سے زیر کیا جو زیر نہیں ہوا اس کے متبادل ایک اور سردار بنایا اور آج تک یہی کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو معاشرتی اقدار ہیں ان کو بھی اس قدر بدلا گیا کہ آج حقیقی بلوچ اقدار ڈھونڈنے سے نہیں ملتے-

انہوں نے کہا جب کسی بھی قوم کو اس کے زمین سے بے دخل کیا جاتا یے تو عموماً دو رویے جنم لیتے ہیں. ایک مزاحمت دوسرا بیگانگی مزاحمت چونکہ مشکل عمل ہے لیکن حقیقی عمل ہے اس سے قومیں ترقی کرتی ہیں اور بیگانگی میں انسان خود کو بھول جاتا ہے چند انسانی ضروریات کے پورا ہونے سے ہی وہ خوش رہتا ہے اس رویے سے قومیں مٹ جاتی ہیں-

طلباء سے مزید گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر منظور بلوچ کا کا کہنا تھا بلوچوں میں ہمیشہ ایک چیز جسے ہم توکل کہتے ہیں ہر ایک مسئلہ اسی توکل پہ چھوڑا جاتا ہے یعنی جو آج ہے کافی ہے کل کا دیکھا جائے گا لیکن جو نوآبادکار ہے یا سرمایہ دار ہے وہ تو مستقبل کا سوچتا ہے اور میرے خیال میں آج بھی بلوچ اجتماعی زہن اتدنی ترقی نہیں کر سکا کہ وہ کل کا سوچ لگا سکے اس کی وجوہات بھی بہت سی ہیں –

منظور بلوچ کا کہنا تھا کہا جاتا ہے کہ جینے اور زندہ رہنے میں فرق ہوتا ہے اور ہم آج جینے کی نہیں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں دو وقت کی روٹی کےلیے مشقت میں ہیں جب پیٹ بھر جائے تبھی انسان کی دماغ کے شریانے کام کرسکیں گے ہمارے دماغ کے شریانے ابھی تک اتنی نحیف ہیں کہ ہم میں جستجو کا عنصر ہی نہیں رہا اور نوآبادکار کی وجہ سے چند مٹھی بھر لوگوں کو چند مٹھی بھر اداروں کو جو مقدس ہونے کا لباس پہنایا ہے وہ بھی ہمارے زہنی نشوونما میں رکاوٹ ہیں سوال ہمارے ہاں کہیں کھو گیا تنقید اپنی افادیت کھو چکا سیاست کو اسی گالی بنایا گیا کہ ہر راہ چلتا بندہ آپکو یہی شگان مارتا ہے کہ میرے ساتھ سیاست نہیں کرو حالانکہ سیاست ہی میں ہماری بقا ہے جب قوموں پہ مشکل وقت آتے ہیں تو اس میں دو چیزوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے. ایک وزڈم یعنی دانشمندی اور دوسرا جرعت یعنی بہادری بغیر بہادری کے دانش کا کوئی فائدہ نہیں اور بغیر دانش کے بہادری بھی تباہی کا موجب بن جاتا ہے-

انہوں نے کہا تبدیلی ہمیشہ اقلیت لاتے ہیں کیونکہ جو شعوریافتہ طبقہ ہے وہ ہمشہ اقلیت میں رہا ہے اور ہمارے ہاں جو نیشنلزم ہے وہ آج بھی قدیم ہے دیہی شکل میں ہے ہم پہننے اوڑھنے میں شاید خود کو جدید کہیں جو نام نہاد جدیدیت ہے حقیقت میں زہنی طور پر ہم آج بھی قدیم میں جی رہے ہیں کل تک بادشاہ مورخ رکھتا تھا جو بادشاہ کے توصیف لکھتا تھا اور وہی لوگوں میں بانٹا جاتا تھا آج بھی ہمارے ہاں بادشاہ کے مورخ لائن میں کھڑے ہیں جو کچھ لکھنے کیلیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں آج کا دانشور چند انسانی آسائشوں کی خاطر یا تو خاموش ہے یا اسے اس کی فکر ہی نہیں کہ اس سماج میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے غافل ہے-

انکا مزید کہنا تھا ہمارے لوگوں کی زہنی ترقی کا اندازہ آپ اس چیز سے لگا سکتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی متاثر کر سکتا ہے چند میٹھی باتوں سے ہمیں راس کیا جاتا ہے جی یہ تو ہمارے لیے کبھی بات بھی کر لیتا ہے ہمارے مسائل پہ بولتا بھی ہے ہم اس قدر پہچاننے اور پرکھنے کی جستجو سے محروم ہیں کہ ہم اپنے لوگوں کو بھی نہیں پہچان پاتے اپنے لٹریچر اور نوآبادیات کے لٹریچر میں فرق نہیں کرپاتے تو آج کے طلبا سے نوجوانوں سے میرا یہی التجا ہے کہ اپنے اندر احساس پیدا کرو خود پہچانو اپنے لوگوں کا غمخوار بنو اپنے نصاب کے ساتھ ساتھ دوسرے کتابوں کا بھی مطالعہ کرو کیونکہ علم سے ہی عمل کا راستہ ہموار ہوتا ہے علم سے ہی آگاہی جنم لیتا ہے اور یہی آگاہی تبدیلی کا موجب بنتا ہے.

لیکچر کے اختتام پہ سوال جواب کا سیشن ہوا جس میں طلبا نے منظور صاحب سے اپنے سوالات کیے جن کا منظور بلوچ نے تفصیل سے جوابات پیش کیے گئے جس کے بعد سرکل اختتام پذیر ہوا‏ –