ہمارے شہید اور ہم
تحریر : دوستین کھوسہ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں بہت قربانیاں دی گئی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس سفر میں ہر قسم کی تکالیف، دشواریاں، مصائب ، گمشدگیوں کا نہ ختم ہونا والا سلسلہ، مسخ شدہ لاشیں ، ٹارچر سیلز ، اپنوں کا بچھڑنا ، اپنوں کی غداریاں سب ممکن ہوتا ہے۔
دشمن کے پاس دنیا کی ہر طاقت موجود ہے ، اس کے پاس ادارے ، وسائل ، ٹیکنالوجی ، گولہ بارود ، ایٹم بم تک ہر چیز موجود ہے مگر بلوچ کے پاس اپنی مٹی اور گلزمین سے جڑی لازوال محبت ہے جو اسے خود سے کئ گنا بڑے دشمن کے سامنے مسلسل مزاحمت کرواتی آئی ہے۔ مٹی کی اس محبت میں بلوچ ہزاروں سالوں سے قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ چاہے وہ انگریزوں کے خلاف ہو یا انگریز کے پالتو پاکستان کے خلاف، بلوچ نسل در نسل مزاحمت کی ایک جداگانہ تاریخ ہے۔ نورا مینگل سے نورا پیرک تک، میر مہراب خان سے نواب اکبر بگٹی تک،سردار دودا خان مری سے میر بالاچ مری تک، کوڑا خان قیصرانی سے سلمان حمل تک، ایک لازوال قربانیوں کا سلسلہ ہے۔
میں کبھی کبھی خود کو بہت بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہوں۔ دل کرتا کاش خدا ہمیں اتنی طاقت دیتا کہ دشمن کے ٹارچر سیلوں سے اپنے بھائیوں کو نکال سکتے پھر دور بیٹھ کر ان کی اہل خانہ سے ملنے کی خوشی دیکھتے۔
چیرمین زاہد بلوچ جب سات سال بعد تاریک کال کوٹھری سے نکلتا اس کے چہرے کی خوشی دیکھتا۔ جب وہ اپنی ماں سے ملتا اس کی خوشی محسوس کر سکتے جب وہ دوبارا اپنی گلزمین کے پہاڑ دیکھتا اس کے جذبات محسوس کر سکتے۔
سنگت ذاکر مجید بلوچ کی ماں گیارہ سال سے اسں کی منتظر ہے کاش ہم ذاکر مجید کو اس کی ماں سے ملا سکتے پھر دور بیٹھ کر ان کی خوشی محسوس کر سکتے۔ زاکر جب دوبارا اپنے دوستوں سے ملتا، خضدار کے پہاڑ دیکھتا اس کے چہرے کی خوشی دیکھنے والی ہوتی۔
سنگت شبیر بلوچ کو چھ سال بعد جب اپنی ماں اور خاندان سے ملتا، ان کے بیٹھتا اس کے اور اس کے خاندان کی خوشی ہم محسوس کرتے کاش۔
فیروز بلوچ کو لاپتہ ہوئے دو سال ہوگئے ، دو سال سے انکے گھر کی ہر خوشیاں لاپتہ ہونگی۔ کاش ہم فیروز کو واپس لاکر اسے اس کے خاندان اور دوستوں سے ملا سکتے پھر ان کی خوشی محسوس کر سکتے۔
اس طرح کی ہزاروں داستانیں ہیں، ہزاروں افراد لاپتہ ہیں نامعلوم ٹارچر سیلوں کی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ہزاروں سنگت وطن کی آزادی کی خاطر شہید ہوئے ہیں۔
اب ہماری زمہ داری ہے ہمارا فرض ہے ہم پر واجب ہے ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہے ان کا خون کو رائیگاں نہیں جانے دینا ہے۔ کیونکہ یہ گلزمین کے مستقبل کی جنگ ہے، یہ نسلوں کی جنگ ہے۔ آج پاکستان ہے کل چائنا ہم پر قابض ہوگا۔ ہماری ہر چیز لوٹ کے لے جائے گا۔ نواب خیر بخش مری کہتے ہیں (دیر مکن دیر گو ترا وقت نیں ) دیر نہ کرو تمہارے پاس وقت نہیں ہے۔
ہم میں سے جو لکھ سکتا وہ لکھے ، جو پڑھ سکتا پڑھے اور اپنا علم اگے بڑھائے۔ جو مال کے ساتھ مدد کر سکتا وہ مال کے ساتھ مدد کرے ، جو ہتھیار کے ساتھ جدوجہد کر سکتا وہ ہتھیار استعمال کرے۔ ڈاکٹر سے کر طالب علم تک ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اپنا اپنا فرض نبھانا ہوگا تاکہ یہ کاروان چلتا رہے۔
جب ہم سب اپنی اپنی مل کر جدوجہد کریں گے منزل ہم سے زیادہ دور نہیں ہوگی۔ جو جو اس سفر میں قوم کا ساتھ دے گا وہ تاریخ میں ہمشہ یاد رکھا جائیگا جو ساتھ نہیں دے گا اور دشمنوں کے ساتھ کھڑا ہوگا وہ تاریخ میں رسوا ہوگا۔ اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم ازکم دشمن کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں