کریمہ کے عشق کی توہین مت کرو
تحریر : محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کیا ہم بس اس کے لیے موم بتیاں جلائیں؟
کیا وہ بس ایسی تھی کہ پریس کلب پر بیٹھے کچھ لوگ اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ استعمال کر کے کوئی وڈیو کلپ بنا کر ہمیں ایسی دعوت دیں کہ ”آئیں کل اس کے لیے موم بتیاں جلائیں!“
اور ہم اپنے ہاتھوں میں پگلتی موم بتیاں لے جائیں اور نما شام ان موم بتیوں کو تیلی دکھائیں اور وہ جلتی رہیں!
جس کے لیے بلوچستان کا دل جل رہا ہے
جس کے لیے بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑ رو رہے ہیں
جس کے لیے بلوچستان میں بہتے جھرنے آنسو بن گئے ہیں
اور پہاڑوں،ندی،نالوں میں چلتی ہوائیں آہیں بن گئی ہیں
کیا ہم اس کے لیے بس موم بتیاں جلائیں
حالانکہ اس کے جانے کے بعد تو بلوچستان کی ایسی حالت ہو گئی ہے جس کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے کیا ہو جستجو کیا ہے؟“
اس کے جانے پر جب پورا بلوچستان ہی اک گہری چیخ بن گیا ہے،آنسو بن گیا ہے تو ان موم بتیوں کی کیا ضرورت ہے
ہم اس کے لیے اپنا دل کیوں نہ جلائیں؟
ہم د ل کو داغ داغ کیوں نہ کردیں
ہم دل کو بارود کیوں نہ دکھائیں
اس کے بعد تو یہ دل بھی کسی کام کا نہیں.
جس کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
”پنہل کھان پوءِ،ڈجے باہِ بھمبور کھے!“
جب ایک پنہل کے بعد سسئی پو رے بمبھور کو تیلی دکھا رہی ہے تو ہم اپنے د ل کو آگ میں کیوں نہیں جھونک سکتے؟
سُقراط اک وصیت کے بعد ہملاک پی گیا
اس نے تو ابھی کوئی وصیت بھی نہ کی تھی
سُقراط نے ارسطو سے کہا
”سنو تم میرا ایک کام کرو گے؟“
ارسطو نے کہا
”استاد ایک کیا ہزاروں کام کہو“
سُقراط نے کہا ”فلاں آدمی سے میں نے ایک مرغی لی ہے وہ اسے واپس کر دینا!“
اور سُقراط ہملاک پی کر خاموش ہوگیا
پر اس نے تو ابھی کوئی وصیت بھی نہیں کی تھی۔ابھی تو اس نے اپنے ہاتھوں سے دیس کا پرچم لہرانا تھا،ابھی تو اس نے دیس کا پرچم سینا تھا۔اس پرچم کو دیس کی گلیوں میں لہرانا تھا۔ابھی تو اسے دیس میں لوٹ آنا تھا۔اپنی سکھیوں سے دیس کی بات کرنا تھا۔بلوچستان کے نخلستان سے ان کجھیوں سے وہ گوشے توڑنے تھے جو آج بھی ان ہاتھوں کے لمس کے منتظر ہیں،ابھی تو اسے بہت چھ کہنا تھا۔وہ سسئی کا پنہوں تھی۔اور پورا بلوچستان اس کا سسئی ہے۔آج سسئی تو ہے،اسے تلاش بھی رہی ہے۔پر پنہوں نہیں جب پنہوں نہیں اور پورا بلوچستان دکھ کی سسئی بنا ہوا ہے تو ہم اپنے پنہوں کو یاد کر کے بس پریس کلب کے در پر سستی سی پگلتی موم بتیاں جلائیں؟!!
سارا شگفستہ نے اپنی سانس لیتی گردن چلتی ریل کی راہوں میں دے دی تھی
سارا شگفستہ نے اپنی گردن کیوں دی تھی ریل کے آہنی پیوں کے نیچے؟
کیوں؟
اس لیے کہ وہ اپنا پنہوں کھو چکی تھی
اور ہم اپنی سسئی کھو چکے ہیں
اور سسئی جیسا بلوچستان اپنا پنہوں
ہم سارا شگفستہ نہیں ؎
ہم بہادر نہیں
پر یہ بھی تو سسئی کے عشق کی توہین ہے کہ ہم اپنی سسئی اور بلوچستان کے پنہوں جیسی بانک کریمہ کے لیے بس ایک اعلان پر پریس کلب پر بس موم بتیاں ہیں جلائیں
یہ کریمہ کی جدو جہد کی توہین ہے
یہ عشق کی توہین ہے
ہم اپنی گردنیں غم اور غصے میں چلتی ریل کے پیوں میں نہیں دے سکتے
پر ہم اک دن کا ماتم تو کر سکتے ہیں
ہم سینہ کوبی تو کرسکتے ہیں
ہاں ہم بہادر نہیں
پر ہم اپنا دل تو جلا سکتے ہیں،ہم بھر پور احتجاج تو کرسکتے ہیں،ہم اس ریا ست کو یہ تو بتا سکتے ہیں کہ
”کریمہ کون تھی
اس کی جدو جہد کیا تھی
اور اس کی بولی کیا تھی؟“
اور ہم اس ریا ست سے یہ سوال تو کر سکتے ہیں کہ کریمہ کو کیوں قتل کیا گیا؟
موم بتیاں جلانے سے بہتر ہے کہ ہم ماتم کریں،ہم اجتما عی ردالی کریں،ہم اجتماعی آہ و بکا کریں،
ہم اپنا د ل جلائیں اور آنسوؤں سے اس د ل کی آگ کو بجھائیں!
ہم کریمہ کی جدو جہد کو بچائیں
کریمہ کی جدو جہد کو موم بتی مافیا کی بھینٹ چڑھنے مت دیں
کریمہ کے عشق کو موم میں پگلنے مت دیں
یہ عشق کی توہین ہے
ہاں ہم کچھ نہیں کر سکتے
ہاں ہم کمزور ہیں
پر ہم اپنے عشق کو تو زندہ باد رکھیں
ہم اپنے عشق کو موم کی کی آگ میں پگلنے نہ دیں
کریمہ کی جدو جہد ان موم بتیوں سے بہت آگے کی ہے
کریمہ کی جدو جہد کو موم بتی اور ماچیس کی نظر ہونے سے بچاؤ
وہ جدو جہد کی علامت ہے اس علامت کی لوَ کو ایسے ہی جلنے دو
اگر کریمہ کو خراش پیش کرنا چاہتے ہو تو اپنی دلوں کو جلاؤ
ایسے جلاؤ کہ وہ بھڑکتی آگ میں جل اُٹھیں
اگر کریمہ کو خراش پیش کرنا چاہتے ہو تو اس پرچم کو تھامو جو کریمہ کے ہاتھوں کینڈا کے دریا میں بہہ گیا
اگر کریمہ کو خراش پیش کرنا چاہتے ہو تو ملک کے ماتھے پر کریمہ کی تصایر سجاؤ
ہاں ہم بہادر نہیں
ایک پنہوں کے جانے سے سسئی بمبھور کو آگ لگانا چاہتی تھی
”پنہل کھان پوءِ،ڈجے باہِ بھمبور کھے!“
ہم بھمبور کو۔۔۔۔۔۔۔تو آگ نہیں گا سکتے
پر ہم اپنی دلوں کو تو تیلی دکھا سکتے ہیں
ہم اپنے دلوں کو تو سُلگاسکتے ہیں
اگر ایسا نہیں کرسکتے
تو موم بتیاں بھی مت جلاؤ
یہ بانک کریمہ کی جدو جہد کی توہین ہے
یہ عشق کی توہین ہے!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں