معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی میت فورسز کے محاصرے میں آبائی علاقہ تمپ میں پہنچائی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جنازے میں شرکت کرنے والے قافلوں کو تمپ کی حدود میں روک دیا گیا ہے اس وقت ضلع بھر میں موبائل سروس بھی معطل ہے۔
کیچ سے آمد اطلاعات کے مطابق ڈی بلوچ کے مقام پر لوگوں کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر میت کے ہمراہ تمپ جانے کی کوشش کی لیکن فورسز انہیں جانے سے روک دیا۔
آخری اطلاعات تک لوگوں کی بڑی تعداد جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں ان کو تمپ کی حدود میں روک دیا گیا ہے اور کراچی سے نکلے ہوئے قافلے بھی ان میں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ رات کراچی ائیرپورٹ پر خاندان کے افراد کے احتجاج پر میت کو چار گھنٹے بعد صبح سات بجے کے قریب حوالے کیا گیا۔ اہلخانہ کے مطابق میت کو کراچی سے ہماری اپنی مرضی کے مطابق روٹس سے نہیں لے جانے دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے کراچی میں مختلف علاقوں میں میت کی استقبال کا پروگرام بنایا تھا لیکن ہمیں دیگر راستوں سے نکال کر بلوچستان کے علاقے حب پہنچایا گیا۔ جبکہ اورماڑہ، تلار اور ضلع کیچ کے حدود میں لوگوں نے راستے میں کھڑے ہوکر میت کا استقبال کیا۔
اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کریمہ بلوچ کی لاش کو سخت ترین سیکورٹی حصار میں لینے پر شدید تنقید کررہے ہیں۔
نشینل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کے ساتھ حکومتی رویہ نامناسب اور قابل مذمت ہے یہ خاندان کی مرضی و منشا کے مطابق ہونا چاہیے۔ تربت اور اردگرد کے علاقوں کو بند کرنا کسی صورت قابل قبول عمل نہیں ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور رکن بلوچستان اسمبلی نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ مرحومہ بانک کریمہ بلوچ کی آخری رسومات کی ادائیگی میں ریاستی رکاوٹ پیدا کرنے کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم مذہبی اور بلوچی رسومات ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس عمل کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور رکن پاکستان اسمبلی نے ریاست سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ کی میت کے ساتھ سلوک، کیا زخموں پر نمک پاشی، شورش سے نمٹنے کی حکمت عملی ہے؟