پہلے لوگ لاپتہ ہورہے تھے اب انکی تصاویر کو لاپتہ کیا جارہا ہے – ماما قدیر بلوچ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے آج صبح سوشل میڈیا میں ایک وڈیو پیغام کے ذریعے بتایا کہ گذشتہ رات کراچی پریس کلب کے سامنے ہمارے کمیپ میں لگے ہوئے لاپتہ بلوچ افراد کے پینا فلیکس اور تصاویر کو نامعلوم افراد پھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ گذشتہ ایک مہینہ سے ہمارا کمیپ کراچی پریس کلب کے سامنے قائم ہے اور گذشتہ روز ہم نے لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی جبری گمشدگی اور اسے مفرور قرار دینے کے خلاف ایک پریس کانفرنس کی تھی کہ رات کو یہ واقعہ پیش آیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کوئٹہ میں ہمارے کمیپ کو جلایا گیا اور ہمیں دھمکی دی گئی اب کراچی میں ہمارے لاپتہ افراد کی تصاویر بھی لاپتہ کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے لوگ لاپتہ ہورہے تھے اب انکی تصاویر کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا اس عمل کی ذمہ دار حکومت اور ادارے ہیں میری جان کو خطرہ ہے اور یہ ایک ٹریلر تھا وہ مجھے ڈرا رہے ہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت سے اپیل کی کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے اگر ان میں کوئی مجرم ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے۔
خیال رہے کہ یہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیا گیا جس کو 11 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے اور یہ طویل ترین کمیپ سردیوں میں کوئٹہ سے کراچی پریس کلب کے سامنے منتقل کیا جاتا ہے۔
اس علامتی بھوک ہڑتال کمیپ میں بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین وقتاً فوقتاً آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔
دریں اثناء وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج آج بھی کراچی پریس کلب کے سامنے جاری رہا جس کو 4200 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔