سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4191 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اکرم خان درانی، نذیر احمد اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جبکہ اس موقع پر سماجی کارکن ایڈوکیٹ خالدہ بلوچ بھی کیمپ میں موجود تھی۔
انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہم دو سال کے زائد عرصے سے انصاف کے منتظر ہیں۔ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات سے غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے جس کے باعث ہمیں ان کے زندگی کے حوالے شدید خدشات لاحق ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان انسانی حقوق کے پامالیوں کا مرتکب ہوئے ہیں، راشد حسین کے حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کردار ادا کریں کیونکہ ملکی اداروں کیجانب سے اس حوالے کوئی پیش رفت نہں ہورہی ہے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی صورتحال اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے اظہار کرنا گردن زنی ہے، رات کی تاریکیوں میں اپنے پیاروں کیلئے آنسو بہانے والی ماوں اور بہنوں کی سسکیاں ٹارچر سیلوں میں دیواروں سے ٹھکرانے والی چیخ و پکار کیساتھ بہتے لہوں انصاف کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لفظ بلوچستان زبان پر آتے ہی جذبات، احساسات، تصورات، خیالات ایک جنگی میدان کا منظر لیکر آتی ہے جہاں ہر طرف آگ کے شعلوں میں انسان جھلستے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں بندوق، بارود اور توپوں کی گرجدار آواز میں سسکیاں سنائی دیتی ہے۔ بلوچوں کی بکھری ہوئی لاشوں میں ماں کی ممتا، بہن کی آنچل، بلوچ کے جذبات، خواہشات اور خواب بھی ریزہ ریزہ دکھائی دیتے ہیں۔
دریں انثاء گذشتہ روز کیچ کے علاقے تمپ سے کراچی جاتے ہوئے حب کے مقام پر لاپتہ ہونے والا نوجوان جلال بلوچ بازیاب ہوگیا۔
ذرائع نے بتایا کہ جلال بلوچ ولد خیر محمد کو گذشتہ روز پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کے بعد پولیس کے حوالے کیا جنہیں بعدازاں رہا کردیا گیا۔