کراچی پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج جاری ہے، احتجاج کو مجموعی طور پر 4201 دن مکمل ہوگئے۔ پاکستان قومی آزادی محاذ کے چیئرمین صادق جارچوی ایڈوکیٹ نے ساتھیوں سمیت کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ وفد نے کیمپ کے پینا فلیکس اور تصاویر پھاڑنے کی مذمت کی۔
ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کی شہادت، لاپتہ کرنا، بلوچ خواتین کی پرامن احتجاج پر وحشیانہ تشدد ور مسنگ پرسنز کے کیمپ کو سبوتاژ کرنا ریاستی جبر کا تاریخی تسلسل ہے۔ ریاستی بوسیدہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے پارلیمنٹ پرست نام نہاد بلوچ ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ بلوچ قوم کا حوصلہ، جذبہ ریاستی درندگی سے مزید مستحکم ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ غیور ساتھیوں کی جانثاری، فداکاری، شہادت، عقوبت خانوں میں بند فرزندان علامتی درخشندہ ستارے کی حیثیت رکھنے ہیں اور بلوچ قوم کو یہ درس دینی ہے کہ فرزندان کی بازیابی کی خاطر ہر قسم کے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفاد میں بدل کر قوم کیلئے اتحاد کے حسین بندھن میں بند کر ہر قسم کی قربانی کیلئے خود کو ہمہ وقت تیار کریں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ آج ہم پھر عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچ قوم پر پاکستانی جابر ریاست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوچکی ہے۔ پاکستانی ریاست مسلسل بلوچ قوم کی نسل کشی کررہی ہے، ریاست جس طرح مچھ، بولان، کیچ، مکران اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فرزندوں کو شہید اور جبری طور لاپتہ کررہا ہے وہ عالمی برادری کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی عالمی برادری نے اپنا چھپ کا روزہ نہیں تورا تو بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین پامالیوں میں وہ بھی شریک جرم ہونگے۔
دریں اثناء ضلع چاغی سے دو سال قبل لاپتہ ہونے والے عبدالروف اپنے گھر پہنچ گئے۔
وی بی ایم پی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عبدالرؤف کی رہائی خوش آئند ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کو بھی یقینی بنائیگی۔
وی بی ایم پی کا کہنا ہے کہ عبدالرؤف کو 8 ستمبر 2018 کو امین آباد چاغی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور 19 دسمبر 2020 کو انہیں ہدہ جیل میں منظر عام پر لایا گیا اور انہیں رہا کردیا گیا۔