کتاب “بدلتی ہوئی تاریخ” پر تبصرہ! – ڈاکٹر مبارک علی | دوستین محمد بخش

864

کتاب “بدلتی ہوئی تاریخ” پر تبصرہ!

مصنف: ڈاکٹر مبارک علی
مبصر: دوستین محمد بخش

دی بلوچستان پوسٹ

آئیے آج پھر دبی ہوئی تاریخ کو شارع عام پر لاتے ہیں۔ آئیے کچھ تاریخ کے جرائم و کراہت کو قلم کی سیاہی سے نگارش کرتے ہیں۔ آئیے کچھ سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کی ہر لکھی گئی کتاب سے بکثرت چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس کتاب “بدلتی ہوئی تاریخ” میں بھی مجھے بہت سی چیزوں کو جانچ پڑتال کرنے کا موقع ملا۔

کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ جب آپ ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو دیواروں پر ایک چیز ضرور لکھا ہے کہ “یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے”

اس حوالے سے ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ جب ملک میں ایوب خان کا دورِ حکومت قائم ہوا تو اس وقت عوام کیلئے سیاست ممنوع ہوا۔ جو بھی سیاست کا شعور رکھتا تھا اس کو کچل دیا جاتا۔ اور پھر آہستہ آہستہ تعلیمی اداروں میں طلباء یونین ختم کر دی گئی۔ عوام اور طلباء کے دلوں میں سیاست کا خوف پیدا ہو گیا اور اسی طرح آج تک کچھ لوگ سیاست کے نام پہ خوف کے مارے تھرانے لگ جاتے ہیں۔

آپ یہ سن کر سکتہ طاری رہ جائیں گے کہ آزادی سے پہلے سیاست میں کانگریس کے مخالف طالب علم، مزدوروں، عورتوں اور شہری آبادی نے حصّہ لیا اور اس وقت سیاست میں عورتوں اور طالب علموں کا وسیع رتبہ تھا مگر جب پاکستان قائم ہوا، تو دھیرے دھیرے یہ بات عیاں ہوتی گئی کہ عورتوں اور طالب علموں کیلئے سیاست اچھی چیز نہیں۔ اور بہتر ہے کہ وہ سیاست سے دور ہو جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ آج تک تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کالعدم ہے۔

سیاستدانوں یا آمروں کی ہمیشہ سے یہی آرزو ہوتی ہے کہ عوام کو جتنا ہوسکے بےشعور رکھا جائے اسی لئے کہ تاکہ ان پر آسانی سے اور تنقید کے بغیر سیاست کی جائے۔ اور ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ آج بھی بعض غلام معاشروں کیلئے غلاموں کیلئے تعلیم حاصل کرنا ممنوع ہے۔ کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو عوام کے اندر شعور کو اجاگر کرتی ہے۔

جب بات سیاست کی آتی ہے تو سیاستدان اپنے اور اونچے درجے یا طبقے کے بارے میں صرف سوچتے اور فکر کرتے ہیں عوام صرف ان کیلئے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں ماضی میں بھی اور آج بھی۔

اس کی مثال ڈاکٹر مبارک علی نے کچھ یوں دیا ہے کہ 1552 میں جب فرانس کا بادشاہ “چارلس” نے جنگ کے دوران سوال کیا کہ کون مر رہے ہیں؟ تو جواب آیا کہ “عوام”۔ تو اس نے کہا کہ عوام کی مثال تو ٹڈیوں اور کیڑے مکوڑوں کی سی ہے۔ اگر وہ مر رہے ہیں تو فکر اور اضطراب کی کوئی بات نہیں۔

کمزور اور خوف زدہ عوام کیلئے شاید فیض نے صحیح کہا تھا کہ؛

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

ایک وقت تھا جب یونانی خود کو دنیا کی مہذب ترین قوم سمجھتے اور دوسروں کو بار بیرین یا وحشی کہتے تھے۔ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ نو آباد کار کی ایک نفسیات ہے کہ وہ اپنے آپ کو اونچا اور تم کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس طرح کے تم پہ اور تمہاری کلچر پہ سوال اٹھاتا ہے تمہاری کلچر اور روایات کو نہیں مانتا۔ اور پھر تمہیں نام دیتا ہے مثلاً، جنگلی، وحشی، جانور وغیرہ وغیرہ۔

جب امریکہ کے معاشرے میں افریقی آئے ( چونکہ وہ غلام تھے، مزدوری کرتے تھے، اپنے حقوق نہیں پہچانتے تھے اور ان کے پاس کوئی طاقت یا قوت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں بات کرے) تو سفید فام امریکیوں نے ان کو “نیگرو” (مطلب کہ سیاہ فام) کا نام دیا اور انہیں پسماندہ اور بوسیدہ حال میں رکھا گیا اور سفید فام کی کوشش یہی تھی کہ ان کو لاشعور رکھا جائے اور ان کو احساس دلایا جائے کہ تم غلام ہو۔

مگر تاریخ بدلتی رہی اور غلاموں کے اندر شعور درخشاں ہوا، تعلیم آئی تو سیاہ فام لوگوں نے سوچا کہ ہمیں بھی معاشرے میں مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ اور پھر انہوں نے “نگر یا نیگرو” کی جگہ “بلیک” استعمال کیا۔

ایک غلام معاشرے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر فکری اور تنقیدی سوچ کو اجاگر کرے جس سے وہ غلامی کی چنگل سے آزاد ہو پائے گا۔ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار جس سے بہت سی نحوستیں ختم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ ایک جگہ بدلتی رہتی ہے تو دوسری طرف دہراتی بھی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے ظلم اور فریب کے خلاف سچائی نے کبھی شکست نہیں کھائی۔

ایک مردہ معاشرہ وہی ہے جو جھوٹ اور سچائی کے درمیان فرق، فریب اور اپنے حقوق کے بارے میں واقفیت نہ رکھے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ؛

“اگر آپ سچائی نہیں جانتے، کم از کم جھوٹ کو پہچان لو۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں