ڈیرہ کے بلوچ
دیدگ نتکانی
دی بلوچستان پوسٹ
کبھی بیٹھے بیٹھے یونہی سوال ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں اور جھنجھوڑتے ہیں کہ آیا ہم خود کو بلوچ کہلوانے کے لائق ہیں؟ وہ بلوچ جو ہزاروں سالہ تاریخ و ثقافت رکھتے ہیں، وہ بلوچ جو ہزار سالہ بلوچستان نظیر جنت کے مالک رہے ہیں اور اپنی قوم اور وطن کے دفاع کیلئے ہر محاذ پہ پیش پیش رہے ہیں، بد قسمتی سے آج اس نہج پر کھڑے ہیں کہ ہمارا بلوچی معیار صرف بڑی شلوار ,دستار اور چوَٹ تک رہ گیا ہے گو کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہیں لیکن جب آپکا وجود ہی نہیں رہے گا تو ثقافت چے معنی دارد؟
بحیثیت ڈیرہ غازیخان کے بلوچ ہمیں کچھ مسائل پہ سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئیے جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
زبان اور قوم-:
اگر زبان کی بنیاد پہ آپ خود کو سرائیکی کہتے ہیں تو میرے خیال میں آپ اپنے ساتھ اور اپنی تاریخ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں کیونکہ قوم کی تعریف “کسی خاص ملک یا علاقے میں آباد ، عام نزول ، تاریخ ، ثقافت اور زبان کے ذریعے متحد لوگوں کا ایک بہت بڑا ادارہ” تو سوال بنتا ہے سرائیکی “قوم” کے پاس یہ سب چیزیں ہیں؟
سرائیکی بلوچ قوم کی ایک زبان ہے اور ہم ویسے ہی اسکو اون کرتے ہیں جیسے بلوچی, براہوی,کھیترانی,جدگالی,سندھی اور باقی زبانیں.
بیلٹس -: بے شک آج ڈیرہ غازی خان ,راجنپور انتظامی اور کاغذی طور پر پنجاب کا حصہ ہے لیکن 70 سالوں سے پنجاب میں رہتے ہوئے نہ ہم اپنی ثقافت سے دستبردار ہوئے ہیں نہ اپنی تاریخ اور جغرافیئے سے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ابھی سرائیکی صوبے کا صرف نعرہ ہی لگا ہے اور ہمارے بہت سے بلوچ قبائل
قوم اور زبان کے درمیان فرق میں الجھن کا شکار ہیں.
احساسِ کمتری -: یہ وہ احساس ہے جس میں انسان بعض حوالے سے خود کو دوسروں سے نفسیاتی طور پہ کمزور اور کمتر محسوس کرتا ہے. فینن نوآبادیاتی نفسیات کے حوالے سے لکھتا ہے کہ غیر مقامی باشندہ آپ کو مسلسل یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ تم بد تہذیب بے شعور اور پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہو ,اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ آپ خود سے سوال کرنے لگ جاتے ہو کہ آیا میں سچ میں بد تہزذب اور بے شعور ہوں.
کسی بھی خطے کو تقسیم کرنے کا سب سے زیادہ نفع سامراج کو ہوتا ہے اسکی وجہ جو ایک مشترکہ قوت اس کے خلاف استعمال ہونی تھی وہ آپسی مسائل,لڑائیوں اور اس سٹیریوٹائپ احساس میں ضائع ہوجاتی ہے کہ جو حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا. چونکہ ہم ایک خاص ریجن کی بات کر رہے ہیں تو یہاں کی احساسِ کمتری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈیرہ غازیخان اور اسکے قبائلی علاقوں کو پنجاب میں شامل کرنے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو انتظامی نظریاتی ,شعوری اور سیاسی حوالے سے بلوچستان سے علیحدہ رکھ کے مفلوج کرنا تھا، تاکہ مشترکہ قوت کو تقسیم کیا جاسکے.ہم دیکھتے ہیں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوگیا لیکن چند باشعور سنگتوں کی روشن فکری,دور اندیشی اور سیاسی پختگی کی وجہ سے آج یہ ممکن ہوا کہ جب کوئی واقعہ پیش آئے چاہے وہ تربت میں ہو , قلات میں ہو یا کینیڈا میں بلوچ قوم کے ہر باشعور فرزند نے اُس کو محسوس کیا اور اس کیلئے ہر طرح سے مزاحمت کی کیونکہ “مزاحمت زندگی ہے”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں