بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ڈاکٹر منان بلوچ کو بچپن سے ہی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی ماں کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ سخت زندگی گزاری۔ 1986 میں ان کے والد کو اس وقت قتل کردیا گیا جب ہم دونوں ہائی اسکول میں تھے۔ وہ چار سال تک ٹیچر رہے پھر بھی میڈیکل آفیسر بننے تک اپنی جدوجہد اور تعلیم جاری رکھے۔ پھر وہ اپنا عہدہ چھوڑ کر بلوچ تحریک آزادی کا سیاسی چہرہ بن گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر منان کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں رکا۔ منان جان کے لئے بے حد پیار اور احترام۔ ہمارا مقصد ان کے نقش قدم پر چلنا ہے، یا تو شہید ہونا یا آزاد ہونا ہے۔
دریں اثناء بلوچ آزادی پسند رہنماء اختر ندیم بلوچ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ شہید ڈاکٹر منان نے سیاسی جدوجہد کے لئے تبلیغ کے ساتھ ساتھ بلوچوں اور دیگر مظلوم اقوام کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی کہ آزادی کیلئے ان کے جوانوں کی قربانیوں اور قیمتی وقت کی ضرورت ہے۔ ان کی محنت اور قیادت کے نتیجے میں، آج تمام آزادی پسند اتحاد کی طرف گامزن ہیں۔
واضع رہے کہ ڈاکٹر منان بلوچ کو تیس جنوری دو ہزار سولہ کو ایک تنظیمی دورے کے دوران پاکستانی فوج نے مستونگ میں ساتھیوں سمیت بی این ایم کے ایک ممبر کے گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے قتل کیا۔
بی این ایم کے مطابق مستونگ میں بی این ایم کے سینئر ممبر اشرف بلوچ کے مہمان خانے میں انہیں معروف قلمکار بابو نوروز، اشرف بلوچ اور اس کے بھائی حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کے ساتھ شہید کیا گیا۔