کسمانک : وت کُشی
قلم کار : ریاض احمد
ترجمہ : بختیار رحیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نکمے نے گھر میں پنکھے میں رسی باندھ لی اور نیچے ٹیبل پر خود کشی کے سارے سامان چھری، بندوق، پٹرول , ماچس اور باقی آلے رکھ دیئے ۔ ٹیبل کے پاس کرسی پر خاموشی سے بیٹھ کر کاغذ پر سب کچھ لکھ کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نوجوان نے کاغذ اور قلم ٹیبل پر رکھ دیا ۔ اپنے گھڑی میں وقت دیکھا، کچھ لمحے سوچنے کے بعد جیب سے موبائل نکالا، کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور ایک نمبر ملایا ۔ کال ایک سفید ریش کے پاس گیا۔
سفید ریش : ہیلو، اسلام علیکم !
نوجوان : وعلیکم السلام، جناب میں خودکشی کر رہا ہوں!
سفید ریش : کیا؟ ارے بچہ نہ کر یہ ایک بے ہودہ کام ہے اور آپ کون؟ میرا نمبر آپ کو کس نے دیا ؟
نوجوان: جناب مجھے چھوڑیں آپکا نمبر بس ایسے تُکے میں لگ گیا ہے۔ میں نے اپنے موبائل کے تمام نمبروں کو کل ڈلیٹ کردیا تھا، ابھی میں نے تُکے سے ایک نمبر ملایا کال آپکے پاس آ گئی۔
پیر مرد: پھرآپ نے فون کس لیئے کیا؟
نوجوان: میں نے ارادہ کیا ہے 12 بجے خود کشی کرونگا ۔اور بارہ بجنے میں ابھی تک ٹائم ہے اور میں نے اپنے فیس بک اور وٹس ایپ کے اکاؤنٹ پہلے بند کرکے ڈلیٹ کرلیئے ہیں، اسی لئے ٹائم پاس نہیں ہورہا تھا، دل نے چاہا فون پر بات کروں جب تک بارہ بج جائے ۔
پیر مرد :آپکی خودکشی کی ساری باتیں بہانے ہیں۔ آج کے نوجوان فون کرکے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں ۔تم نے کیا سوچا؟ تم فون کروگے، میری بیٹی آپکا کال اٹینڈ کرے گی، تم اسے دھوکہ دے کر معشوق بناو گے، بھگا کر اس سے شادی کرو گے۔
نوجوان نہیں : میں سچ بول رہا ہوں
پیر مرد: میں کہہ رہا ہوں رکھ دو فون ؟ اگر فون نہیں رکھوگے، تو میں بندوق لے کر پہنچ جاؤں گا۔
نوجوان نے فون کاٹ دیا ۔ایک اور نمبر ملایا، فون ایک درزی کے پاس گیا درزی نے فون اٹھایا
درزی: ہیلو؟
نوجوان : ہیلو سر، میں خود کشی کر رہا ہوں
درزی: ابِے ے ے !پسنی والا ہے! آپ لوگوں کے پاس کوئی اور کام نہیں؟ تمھارے خود کشی کا اثر ہمارے گوادر والوں پر پڑا ہے۔
نوجوان : تم پوچھ ہی نہیں رہے، خود کشی کیوں کر رہا ہوں؟
درزی: نہیں! مجھے پتہ ہے یا عشق کا چکر ہے یا غریبی ۔ وٹس ایپ اور فیس بک نے لوگوں کو ایسا کیا ہے کوئی بات ہی نہیں رہی ہے ۔
نوجوان : سوشل میڈیا کا کیا قصور ہے ؟
درزی: سارے قصور ہی اسی شوم کے ہیں ۔
میں خود پہلے سارا دن اس بے فائدہ سے اپنا سر کو پکاتا تھا ۔ میں نے جب پھول کامِل شروع کیا میری جان چھوٹ گئی۔ ارے اچھا! جب دوزخ میں جاؤ گئے میرے والد کو سلام کرنا۔
نوجوان : آپ کے والد نے بھی خود کشی کی تھی؟
درزی: ہاں بالکل!
وہ ایک دن نشہ نہ ملنےپر پاگل ہوگیا تھا، پھر دریا تک پہنچتے مرنے کے قریب آگیا۔ وہ بہت ظالم شخص تھا ۔ایسا کوئی دن نہیں گذرا، جب اس نے میری ماں کو نہیں مارا ہو۔ میری ماں اپنی زندگی سے بیزار تھی۔ لیکن اس نے خودکشی نہیں کی ۔ماں کو پتہ تھا، جب میں خود کشی کرونگی تو یہ مرد مجھے دوزخ میں بھی اسی طرح مارے گا۔ وہ کپڑا سیتی تھی، دوسرں کے گھر کو جھاڑو پونچھا لگاتی تھی، ہماری پرورش کرتی تھی۔ زندگی کے دن پورے کئے ۔اللہ اسے جنت نصیب عطا فرمائے مگر آپ میرے والد کو سلام کرنا مت بھولئے گا۔ اللہ حافظ
نوجوان نے کسی دوسرے نمبر کو ملایا فون کو ایک مزدور نے اٹھایا
مزدور: ہیلو؟
نوجوان : سر میں خود کشی کررہا ہوں !
مزدور: ابے ے! تو نے اس بات پر میرا نیند خراب کردیا ؟ مجھے کل مسجد کے اعلان سے خود معلوم ہوجاتا۔ ارے! آپ ایسا کرو آج نہیں کل بدھ کی رات کو خودکشی کرلو۔ بندہ جمعہ کے دن سوْم کے خیرات میں موجود ہو پائے گا۔
نوجوان : میری زندگی کا سوال ہے اور آپ اپنے پیٹ اور نیند کی فکر میں ہیں۔
مزدور: میں ایک بی اے پاس مزدور ہوں، سارا دن محنت مزدوری کرنے کے بعد رات کو ایک دو نوالہ مشکل سے مل جاتا ہے کھاکر سو جاتا ہوں، صبح سویرے ہمیں کام پر جانا ہوتا ہے۔آپ لوگوں نے پھانسی کو ایک فیشن بنایا ہوا ہے، ہم آپ لوگوں کو کیسے روک سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کو اللہ ھدایت دے۔
نوجوان: فیشن کے لیے اپنے آپ کو کوئی نہیں مارتا ہے ۔میں دوسروں کو نہیں جانتا میرے اپنے غم اتنے زیادہ ہیں جو میرے صبر وتحمل سے باہر ہیں ۔اب اس دنیا میں رہنا ہی مشکل ہے ۔
مزدور: یہ غم اور پریشانیاں انسان کے پرانے دوست ہیں۔ پہلے زمانے کے لوگ ہم سے زیادہ غریب اور لاچار تھے، مگر انہوں نے خود کشی کبھی بھی نہیں کی۔ حالات کا مقابلہ کرتے رہے، خود کشی تو بزدلوں کا کام ہے ۔
نوجوان: یہ بزدلی کا کام نہیں بلکہ مرد کا کام ہے ۔جب انسان اپنے موت کو خود خوش آمدید کہے ۔
مزدور: مجھے پتہ ہے آپ لوگوں کو بات سے کوئی نہیں ہرا سکتا، میں بس یہ کہتا ہوں، جب بے روزگاری سے تنگ ہو تو پھر کل 8 بجے ساحل کے کنارے والی مسجد میں پہنچ جاؤ آپ کو کام پہ رکھ دیں گے اگر محبت کا کیس ہے تو پھر بھی آ جاؤ سارا دن کام کرو گے ، رات کو تھکاوٹ سے سوجاؤ گے تو لیلیٰ کو بھول جاؤ گے۔
نوجوان : کیا آپ نے بھی عشق کیا ہے؟
مزدور: ہاہاہا
میری لیلیٰ اب بوڑھی ہوکر گذرگئی۔ چھ بچوں کی ماں تھی۔ میں صدقے ہو جاؤں ۔ وہ جنت میں اس روپ میں ملے گی جیسے جدائی کے وقت تھی۔
نوجوان : آپ اسکے ِبنا کیسے جی رہے ہو؟
مزدور: وہ مجھ سے کہاں دور ہے؟ میں جس سمت نظریں ڈالوں تو اسکی تصویر مجھ دکھتی ہے ۔میں جب بھی اکیلا بیٹھا ہوا ہوتا ہوں وہ اپنی دلہن جیسی روپ میں آکرمجھے افسردہ کرتی ہے “
نوجوان : مجھے پاگل نہیں ہونا ہے !
مزدور: پاگل پن عشق کی معراج ہے ۔اگر آپ کے خود کشی کا ارادہ پکا ہے تو اللہ حافظ ۔
نوجوان نے کسی دوسرے نمبر کو ملایا کال ایک شاعر کے پاس گیا تو شاعر نے فون کو اٹھا لیا
شاعر: اسلام علیکم ؟
نوجوان :وعلیکم سلام ۔سر میں خود کشی کر رہا ہوں !
شاعر: ظہور شاہ کہتا ہے
(میں سوچ رہا ہوں دل میں
میرے لئے آئے گا ایک معشوق)
(ہر طرح سیؔد گزارے گئی
اس رنج اور غم کی سال کو )
نوجوان : واہ
شاعر: ناصر کاظمی کہتا ہے
(وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی )
نوجوان : واہ! مگر میرا خود کشی کا ارادہ پکا ہے ۔
شاعر: آپ کیسے خود کشی کر رہے ہو ؟
نوجوان : میرے پاس خود کشی کے سارے سامان موجود ہیں۔میں اپنے سر میں گولی مار دونگا بس ایک ہی سیکنڈ میں سارے درد اور غموں سے ہمیشہ کے لئے آزادی ملے گی۔
شاعر: آپکے والد اور والدہ مر چکے ہیں یا زندہ ہیں؟
نوجوان : زندہ ہیں ، کیوں ؟
شاعر: پہلے اپنے والدین کو گولی مار دیں اسکے بعد اپنے آپ کو گولی ماردیں
نوجوان : انہیں کیوں مار دوں ؟
شاعر: آپ کو کیا لگتا ہے؟ آپ کے مرنے کے بعد وہ زندہ رہینگے ؟ وہ روز دن میں سو مرتبہ مرینگے، زندہ لاش بنیں گے۔ آپکی ماں نے آپ کو نو مہینے پیٹ میں رکھا، دو سال دودھ پلاتی رہی، آپکی ہر ضرورت کو پورا کیا، تجھے جوان کیا۔ اسکی اب خواہش یہ ہے وہ آپکے دولہا ہونے کا مراد اپنے آنکھوں سے دیکھے۔ آپکے بچوں کو پیار کرے۔ اب آپ کچھ دیر بعد اپنے اوپر بندوق رکھینگے ٹریگر کو دبایں گے، گولی کی آواز سے آپکی ماں اٹھ کھڑی ہوجائے گی ، دوڑ کر آپکے کمرے میں آئے گی ۔ دروازہ کھول کر کمرے کے اندر آپکا گولیوں سے پھٹا سر ہر طرف بہتے ہوئے خون کو دیکھے گی، آپ خود سوچو اسکی کیا حالت ہوگی۔
دوسرے طرف آپکا والد محترم صبح اپنے جوان بیٹے کے جنازہ کو کندھا دے گا۔ اسکے دل پر کیا گذرے گی؟
کاش یہ نوجوان اپنے اٹھتے جنازے کا سارہ ماجرہ اپنے آنکھوں سے دیکھ لیتے۔۔ ماں بہنوں دادا دادی کو گڑ گڑاتے ہوئے والد کو اپنے آنکھوں کو چھپاکرآنسو پُونچتے ہوئے دیکھتے پھر کوئی نوجوان خود کشی نہیں کرتا۔
نوجوان : آپکی ساری بات صحیح، لیکن خدا کے اس دنیا سے میںرا دل ٹوٹا ہوا ہے۔ میں کیا کروں ؟ غریبی ،لاچاری تنگ دستی پہلے سے کم نہیں تھا اب ایک جدائی کاغم بھی آ گیا۔
شاعر: میں آپکو ماسٹر کا نمبر سینڈ کرونگا آپ اسے فون کرو وہ ہر قسم کے سوالات کے جواب دینے میں ماہر ہے، اس نے اسلام اور نفسیات دونوں پڑھا ہے ۔نمبر میں آپکو میسج کرونگا اسے ضرور فون کرنا ! اللہ نگہباں ۔
کچھ لمحہ گذرنے کے بعد میسج آیا نوجوان نے نمبر ملایا فون کو ماسٹر نے اٹھا لیا
ماسٹر: السلام علیکم سر؟
نوجوان : وعلیکم السلام، سر میں خودکشی کر رہا ہوں ۔آپ سے ایک دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔
ماسٹر: یہ سوال پوچھنے کا وقت نہیں مگر آپ کو جو پوچھنا ہے پوچھو ۔ ۔
نوجوان :اللہ کے بنائے ہوئے اس دنیا میں انسان اتنا لاچار اور پریشان کیوں ہے ؟ اور اس لاچاری تنگ دستی اور پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے انسان جب خود کشی کرے تو اللہ اسے دوزخ میں کیوں ڈالتا ہے ؟
ماسٹر: سب سے پہلے آپ اس دنیا میں اللہ کے نظام کو پہچانو۔ اس دنیا میں یہاں آپکو ہر قسم کی جو خوشی اور غم ملینگے، وہ پانچ باتوں میں سے ایک ہے۔
پہلا یہ ہے شاید آزمائش ہے۔
دوسرا شاید یہ ہے کہ اس کام میں آپ کے لیے خیر چھپا ہوا ہو۔
تیسرا یہ ہے کہ شاید وہ آپ کے گناہ کا سزا ہو ۔
چوتھا شاید اللہ تعالٰی آپ کو ایک بہتر کام کے لئے تیار کر رہا ہے۔
پانچواں عام فطرت یا قانون ہے۔
نوجوان : آزمائش کو میں نے پہچاں لیا۔ دوسرے کو سمجھاؤ۔
ماسٹر: ماں کو اپنے بچے سے پیار ہے مگر خدا کواپنے بندے سے سترماؤں سے زیادہ پیار ہے ۔جیسا ماں اپنے بیٹے کو کبھی کڑوی دوائی پلاتی ہے اور کبھی جلتی چنگاری سے دور کرتی ہے، بچہ نہیں جانتاہے۔ وہ یہی سمجھتاہے، ماں ظالم انسان ہے، مگر ماں جانتی ہے اس کام میں میرے بچے کے لئے خیر چھپا ہوا ہے ۔
نوجوان : یہ میں سمجھ گیا تیسرا کونسا ہے ؟
ماسٹر: خدا مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔ وہ انسان کو بعض دفعہ گناہوں کی سزا اسی دنیا میں دیتا ہے تاکہ وہ آخرت میں سزا وار نہ ہو ۔
نوجوان : صحیح کہہ رہے ہو، چوتھا؟
ماسٹر: خدا کو جب انسان سے کوئی کام لینا ہو تو وہ اسباب بنائے گا ۔ سمجھو خدا کو حضرت یوسف کو مصر کا وزیر خزانہ مقرر کرنا تھا تو اسے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں کنویں میں گروا دیا ۔
نوجوان : ہاں! پانچواں میں جانتا ہوں، ہر کام کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ہے ۔ جب نمک کھاؤ گئے تو منہ نمکیں اور شکر کھاؤ گئے تو میٹھا ہو جائے گا۔
ماسٹر: صحیح سمجھے۔
نوجوان : سر آپ نے یہ نہیں بتایا خود کشی حرام کیوں ہے ؟
ماسٹر: ایسا سمجھو یہ دنیا ایک امتحان کا حال ہے۔ اور ہر طرح کے خوشی اور غم امتحان کے پیپر ہیں ۔ زندگی کے ماہ اور دن اسی امتحان کے تین گھنٹے ہیں ۔ پیپر بھرنا ہے ۔انسان اپنی زندگی کے ہر چیز کے لکھنے سے آزاد ہے ۔زندگی کے مقرر دن ختم ہونے کے بعد پیپر چیک ہو جائینگے ۔ نتیجے کا اعلان ہوگا۔ پاس ہونے والے شخص جنت میں جائینگے اور فیل ہونے والے شخص دوزخ میں ۔اگر ایک شخص خود کشی کرے گا سمجھ لو وہ اپنا پیپر حل کرنے کے بجائے پھاڑ کر یہ کہتا ہے مجھے امتحان دینا ہی نہیں ہے ۔ پھر وہ بلاشبہ فیل ہی ہوگا ۔ کیونکہ اس امتحان کا کوئی سپلیمنٹری نہیں ہے ۔
نوجوان : اوووو، اب میں سمجھ گیا ۔
ماسٹر: ایک بات اور بھی ہے خدا انسان پر اس کی گنجائش سے زیادہ وزن کبھی بھی نہیں ڈال دیتا ہے ۔ سب سے زیادہ مشکل آزمائشں پیغمبروں پر تھے ۔
حضرت ابرہیمؑ کو اللہ نے پہلے اولاد نہیں دی ۔ جب بوڑھاپے میں ایک بچہ دیا ۔ حکم دیا بچے کو مکہ کے سیاہ ڈن کے میدان میں چھوڑ کر آو پھر یہی بچہ حضرت اسماعیلؑ جب بڑا ہوا اللہ نے حکم دیا اسکے مبارک گلے پر چھری پھیر دو ۔آپ خوش نصیب ہیں آپکی آزمائشیں مشکل ہیں۔آزمائش کا مشکل ہونا پیغمبروں کا درجے ہے ۔
نوجوان : صحیح کہہ رہے ہو سر۔
ماسٹر: آ جاؤ دروازہ کھول دو میں باہر کھڑا ہوں ۔
ورنا: آآآں۔۔۔ سر آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا؟ میرا گھر کا کیسے پتہ لگایا ؟
ماسٹر: تھوڑا صبر کرو ۔ میں تجھے بتا دیتا ہوں پہلے خاموشی سے میرے پاس آجاؤ۔دروازہ کھول دو ڈرنا نہیں میں تجھے خود کشی سے نہیں روک روکوں گا!
نوجوان دروازہ کھولتا ہے ماسٹر کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہے دونوں کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔
نوجوان آپکا لاکھ شکریہ آپ کی باتوں نے نہ صرف میری زندگی کو بدل دیا بلکہ مجھے ننئی زندگی بخش دی ۔ 12 بج گئے لیکن میں نے خود کشی کا ارادہ کینسل کر دیاہے ۔آج سے میری دوسری نئی زندگی کی ابتدا ہوگئی ہے ۔آج سے میں ہر غم کو آزمائش ،بہتری ،سزا، خدا کا منصوبہ یا فطرت کا قانون سمجھ کر خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اور اس نے لکھا ہوا تحریر کا پرچہ پھاڑ کر پھینک دیا
ماسٹر: بہت خوب ! اور اس بات کو نوٹ کر لینا فیس بک سے پانچ ہزار فرینڈ سے وہ پانچ دوست بہتر ہیں جن سے آپ حقیقت کیں بات کرسکو۔
اگر کسی بات نے آپ کو زیادہ ٹینشن دیا ۔ پھر اکیلے بیٹھ کر رونا یا ساحل کے کنارے جاکر زور زور سے چھلا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کردو ۔سب سے اہم بات یہ ہے خدا پر بھروسہ رکھو ۔نماز کا پابند رہو ہر وقت قرآن کی تلاوت کرو۔کیونکہ خدا کے ذکر صلوات سے دلوں کو سکون مل جاتا ہے ۔
نوجوان : بے شک۔ سر آپ نے مجھے یہ نہیں بتا دیا کہ آپ نے مجھے پہچانا کیسے ؟ میرے گھر کا پتہ کیسے لگایا ؟
ماسٹر: او، سنو ! تم جس لڑکی کی خاطر خود کشی کر رہے ہو وہ میری بھانجی ہے ۔
نوجوان : کیا؟
ماسٹر: ، بچوں کے والدین اپنے بچوں کے لئے اچھا سوچتے ہیں۔مجھے اپنی بھانجی سے اپنے بچوں کی طرح محبت ہے ۔میں تجھے ایک دو ہفتہ سے دیکھتا رہا لیکن مجھے آپ جیسے بےکار ،ٹائم پاس اور مایوس کے لئے رشتہ پسند نہیں آیا۔
آپ سارا دن گلیوں میں بیٹھ کر موبائل مپر پبجی کھیلتے ہو، بھلے اب آپکے دل اور دماغ میں تبدیلی آگیا۔میں تجھے اور موقع دیتا ہوں سرکاری نوکری مجھے پتا ہے آسان نہیں بھلے دریا زندہ باد۔ کل آجاؤ میں تجھے اپنے بھائی کے کشتی پر بھیج دونگا ۔ایک سال تک تجھے دیکھتا رہونگا ۔اللہ خیر کرے گا انشااللہ ۔۔۔
نوجوان : میں تیار ہوں کل میں صبح پہنچ جاؤں گا ۔ دونوں اٹھ کر سینہ ملا کر چلے جاتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں