دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے ڈاک قبول کے قریب ڈھڈر سے مقامی انتظامیہ کو ایک نوجوان کی لاش ملی ہے جسے شناخت کے لئے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
لاش کی اطلاع مقامی افراد کی جانب سے انتظامیہ کو ملی تھی جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاش کو اپنے تحویل میں لیکر سول اسپتال نوشکی منتقل کردیا ہے۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق نوجوان کی عمر 27 سال کے قریب ہے جس پر 8 گولیوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔ تاہم اسکی شناخت ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
لاش کو سول اسپتال نوشکی میں شناخت کے لئے رکھ دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کے مطابق نوشکی میں دس روز کے دوران یہ تیسری لاش ہے اس سے قبل نوشکی سے دو افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہے جن میں ایک کی شناخت امان اللہ محمد حسنی اور دوسرے کی گلبدین سکنہ چاغی سے ہوئی تھی۔
یاد رہے بلوچستان کے طویل و غرض میں مسخ شدہ لاشوں کے برآمدگی کا سلسلہ پرانی ہے اس سے قبل ستمبر کے مہینے میں دالبندین سے چار سال سے لاپتہ حفیظ اللہ کی لاش لاش بھی ملی تھی۔
حفیظ اللہ جسے دالبندین سے اغواء کرکے انکے لواحقین سے 60 لاکھ تاوان طلب کی گئی تھی۔ پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے خبر میڈیا میں آنے کے بعد اس کی تصدیق کی تھی۔
فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے اگست 2019 میں اس حوالے سے جاری کیئے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی سزا کی توثیق کی ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’مسلح افواج کو اپنے اداراتی احتسابی نظام کا احساس ہے ۔اس لیے اس افسر کو ملازمت سے برطرف کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔‘
بلوچستان میں قائم انسانی حقوق کے تنظیمیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق ریاستی ادارے بلوچ لاپتہ افراد کو قتل کرکے مختلف طریقوں سے لاشوں کو مسخ کرتے ہیں تاکہ ان کی شناخت ممکن نا ہوسکے اور ایسے کئی واقعات میں فوج کی جانب سے لواحقین سے تاوان طلب کرنے کی شکایات بھی ہمیں لواحقین کی جانب سے موصول ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں قوم پرست پارٹیوں کے جانب سے جبری گمشدگی اور مسخ لاشوں کی برآمدگی کی ذمہ دار پاکستانی فوج پر عائد کی جاتی ہے اور مختلف تنظیموں اور اداروں کے مطابق بلوچستان سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔