بلوچ طالب علم رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے شہداء قبرستان نیو کاہان میں بی ایس او آزاد کے سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ ادائیگی کے بعد وہاں پہ موجود شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس قوم کا نظریہ مزاحمت اور فلسفہِ قربانی ہو اسے مٹانا ممکن نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا نظریہ ہماری لاشوں کو مسخ کرنے یا بے حرمتی کرنے سے ختم نہیں ہوگا کیونکہ اس نظریہ کی آبیاری کے لیے شہیدوں نے اپنا خون دیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ دو دن پہلے کریمہ بلوچ کی لاش کو وصول کرنے کے لیے اس کے اہلخانہ سے جس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا وہ شرمناک ہے، ایک طرف ریاست کہتی ہے کہ میں اس قتل میں ملوث نہیں ہوں اور پھر اس لاش سے اتنا خوفزدہ ہونا اس چیز کا ثبوت ہے کہ تم اس قتل میں ملوث ہو۔
انہوں نے مزید کہا کریمہ بلوچ کی لاش اور اس کے اہلخانہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بیٹھا کر تمپ روانہ کیا گیا، شاید ریاست یہ سوچ رکھتی ہے کہ اس نظریہ کو روک سکتی ہے جس نظریہ کے لیے کریمہ بلوچ نے اپنی زندگی قربان کی، یہ اسکی ناکامی ہے کیونکہ یہ نظریہ پھیل رہا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ اس دن پورے تمپ کو بند کیا گیا تھا، سینکڑوں کی تعداد میں بچے ،بوڑھے جوان اور خواتین کو جسد خاکی کو دفنانے کے وقت وہ (فورسز اہلکار) روک رہے تھے تاکہ لوگ تمپ جا نہ سکیں، ریاست کہتی ہے مزاحمت ختم ہوچکا یہ اسکی بوکھلاہٹ ہے بلوچ مزاحمت زندہ ہے۔
طالب علم رہنماء نے کہا اب بھی ہر بلوچ کا نظریہ وہی ہے جو ہمارے شہداء کا نظریہ تھا، حاکم اور مظلوم کا رشتہ جبر کا ہے وہ ہماری سانسوں پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے ہمیں انکو بتانا ہوگا کہ یہ وطن ہمارا ہے، یہ سانسیں میری ہے تم کو کوئی حق نہیں کہ بلوچ کا استحصال کرو۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری بوکھلاہٹ ہے قبروں کو مسمار کرنے سے نظریے ختم نہیں ہوتے ایک ہی رات میں تم نے کریمہ کی قبر کو مسخ کیا آج وہ بلوچستان کی ماں بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم جس مقام پہ کھڑے ہیں یہ عام جگہ نہیں بلکہ یہاں بابا بلوچ خیر بخش مری کا قبر ہے، اور اسکا نظریہ مسلسل جدوجہد ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ اپنے وطن کے مالک خود ہیں تم اپنے بندوق سے ہمیں ختم کرسکتے ہو لیکن ہمارے نظریہ کو نہیں۔
ماہ رنگ نے کہا کہ جس طرح خیر بخش کا نظریہ قائم ہے اسی طرح کریمہ کا نظریہ ہم میں زندہ ہے جب جب دشمن اس قبر کی طرف دیکھے گا اسے وہ نظریہ پھلتا پھولتا نظر آئے گا۔
انہوں نے کہا جب محکوم کے پاس اسکی زندگی بچ جاتی ہے قربانی دینے کے لیے جب اسکو پتہ چلتا ہے جو استحصال کرنے والا حاکم وہ تمام حد پار کرچکا ہے اسکے سامنے بات کرنا گناہ، اپنا حق مانگنا گناہ جو آخری چیز بچ جاتا وہ زندگی ہے، اور آج بلوچ کا ہر بچہ اس غیر انسانی عمل کے خلاف اپنا زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا یہ زندگی، وطن ہمارا ہے ہم مزید استحصال برداشت نہیں کر سکتے ہیں اور کریمہ بلوچ کی نظریہ کو زندہ رکھیں گے۔