نسل در نسل مسافت
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ مزاحمت کی موجودہ اور سب سے طویل و شدید دور اس صدی کے انتہائی ابتدا ہی سے خاموشی کے ساتھ شروع ہوچکا تھا، لیکن ٹھیک دو دہائی قبل آج کا ہی دن تھا، جب 6 جنوری 2001کو شہادتوں کے طویل سلسلے کی ابتدا گلبہار پرکانی، واحد بخش مری اور صوبدار مری نے قلات کی ایک یخ بستہ شام طویل مزاحمت کے بعد اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے کردیا۔ اگلی صبح پاکستانی ٹی وی چینلوں پر ایک مختصر خبر چلی کہ قلات میں “را” کے تین “اہلکار” مارے گئے ہیں۔ قوم کی اکثریت کیلئے یہ خبر انوکھی ضرور تھی کہ را بلوچستان میں کیسے لیکن بہت سوں کیلئے یہ نظر اندازکرکے اپنے کاروبار زندگی میں دوبارہ مشغول ہونے والی خبر سے زیادہ کچھ نا تھا۔ لیکن یہ چھوٹی خبر آگ کی وہ چنگاری تھی، جس کے بلند شعلے ایک مضبوط و توانا اور واضح تحریک و مقصد کی صورت بیس سال بعد بھی آج نا صرف دکھائی دے رہی ہیں بلکہ اسکی تپش ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔
آج نا کوئی گومگو کی کیفیت ہے، نا کسی واقعے پر تذبذب کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، آج ہر واقعے کے بعد قاتل و مقتول دونوں واضح طور پر خنجر و خون کی صورت میں اپنے اپنے نیت و مقصد کی دلالت بلا کچھ بولے اور بلا وضاحت کرتے ہیں۔ ایک نسل نے اس جنگ کی ابتدا کی تھی لیکن آج یہ جنگ جس نسل کو منتقل ہوئی ہے، وہ اس جنگ میں پیدا ہوئی ہے، اس میں پلی بڑھی ہے۔ ان دو دہائیوں میں یہ جنگ ایک نسل سے دوسرے نسل تک کامیابی کے ساتھ منتقل ہوگئی ہے۔
آج بلوچ کی جنگ، بالکل واضح ہے، سوالات ہیں لیکن تذبذب نہیں، طریقہ کار پر اختلافِ رائے ہوسکتا ہے لیکن مقصد پر نہیں، میرکارواں سے بیدلی ہوسکتی ہے لیکن قافلے سے نہیں، ہم سفر سے گلہ ہوسکتا ہے لیکن سفر سے نہیں۔ جب راستے خون سے دھلے ہوں اور شہید جسم سنگ میل ہوں تو پھر کوئی اندھا اماوس کی رات بھی رستہ نا کھوئے۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہماری قومی جنگ کس اور کے قوانین سے ہم آہنگ ہوتا ہے یا نہیں، یہ کسی اور کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے یا انکے عین مطابق ہے، کسی کا ذہن اسے تسلیم کرتا ہے یا نہیں، ہر ایک کی اپنی عینک ہے، اپنے مفادات، اپنی ضروریات اور اپنی سوچ۔ کسی کو اس قومی جنگ میں جذباتیت نظر آتی ہے، تو کسی کو فاشزم، تو کسی کو انتہاء پسندی و جنونیت اور کسی کو پاگل پن اور کہیں جاکر کسی کو عالمی لاقانونیت اور کسی کو عدم انسانیت، کسی کو غیر سائینسیت، کسی کو رجعت، کسی کو روایت پسندی۔ ہر ایک کا اپنا زاویہ اور اپنا پیمانہ، اس میں کوئی زبردستی نہیں، اختلاف رائے ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے، جب کوئی حق کے لیئے لڑتا ہے، وہ ہمیشہ دوسروں کے حق کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
مگر چند سوالات ہمیشہ ذہن میں گردش کرتے ہیں، گر کوئی کہتا ہے یہ جنگ جذبات و جنون کے بنیاد پر چل رہی ہے، تو پھر آج بلوچ قومی جنگ کو دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے، اس بیس سال سے زائد عرصے میں باقاعدہ ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور یہ جنگ انکو منتقل بھی ہوگئی، ایسے بھی نوجوان ہیں، جب یہ جنگ شروع ہوئی تھی تو وہ نوجوان اپنی ماوں کے پیٹ میں پل رہے تھے، آج وہ جنگ کا حصہ ہیں۔ تو پھر یہ سوال نہیں اٹھتا کہ اگر جذبہ ہے، جنون ہے، تو وہ جذبہ و جنون اس جنگ کو پیدا کررہی ہے یا قومی ضرورت کی یہ جنگ جائز جذبہ و جنون پیدا کرکے قومی جنگ قائم رکھے ہوئے ہے؟
ابھی بیس سال ہوئے ہیں اور یہ جنگ مکمل تیزی سے نا صرف جاری ہے بلکہ اس میں جدت و شدت پیدا ہوتی جارہی ہے اور دنیا کا کوئی بھی تجزیہ کار یہ نہیں کہہ سکتا کہ فتح کے بغیر آنے والے کم از کم دس سالوں اس جنگ کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے، جہاں جنگ معروض و حقیقت سے کٹا ہو اور محض جذبات کے بنیاد پر اتنی طوالت اختیار کرچکا ہو کہ بآسانی ایک جاری جنگ تیسری نسل کو بھی منتقل کرنے کی صلاحیت رکھے؟
جو نسل جنگ میں پیدا ہوئی ہے اور غلامی کے تپش کو بدترین حالت میں محسوس کرتے ہوئے جوان ہوئی ہے، اس سے زیادہ باشعور کوئی نہیں ہوسکتا ہے، بلکہ اسکا جنون بھی شعور ہے، اسکا جذبہ بھی شعور ہے، اسکا غصہ بھی شعور ہے، حتیٰ کہ وہ جنگ شروع کرنے والے اپنے اجداد سے بھی زیادہ باشعور ہے، کیونکہ اجداد نے جب جنگ شروع کی تھی تو انہوں نے جنگ کی تباہ کاریاں نہیں دیکھیں تھیں، نئی نسل تباہی و بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اسکا حصہ ہے۔
جس طرح امریکی سیاہ فام لیڈر میلکم ایکس اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ ” میں ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ ایک رات کلو۔ کلکس ۔ کلین کا مخروطی کنٹوپ والے چوغے پہنے گھڑ سواروں کا ایک گروہ ہمارے گھر آیا (یہ بات میری ماں نے بعد میں مجھے بتایا) گھڑ سواروں نے ہمارے گھر کا محاصرہ کرلیا اور رائفلیں اور شاٹ گن لہرا کر میرے والد کو گھر سے نکلنے کے لیئے للکارنے لگے۔ میری والدہ درواذہ کھول کر باہر آگئی اور انہیں بتایا کہ وہ اس وقت گھر میں تین بچوں کے ساتھ اکیلی ہے اور بچوں کا باپ تبلیغ کے سلسلے میں ملواکی گیا ہوا ہے۔ کلین کے آدمیوں نے ہمیں دھمکیاں دہتے ہوئے گھر کے گرد چکر لگانا شروع کردیا، وہ مشعلیں لہراتے ہوئے، بندوق کے بٹوں سے کھڑکیاں توڑ کر اندھیرے میں
غائب ہوگئے۔” ماں کے پیٹ سے ہی ایسی وحشت میں زندگی گذارنے والا میلکم ایکس بعد ازاں بلیک پینتھر جیسے تنظیم کا بانی بنا۔
بے شمار بلوچ نوجوان میلکم ایکس کی طرح اس سے بدترین وحشت و بربریت سے گْذر کر آج نوجوان ہوچکی ہے، آج شہداء کے خون کے بدولت مستقل مزاج، مخلص، محنت کش، جہدکاروں کی جدوجہد کے بدولت بلوچ قومی آزادی کی جنگ پہلی دفعہ بغیر رکے باقاعدہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوچکی ہے، جو بلوچ قومی جنگ کی شعور اور مستقل مزاجی کی ایک واضح علامت اور ثبوت ہے۔
یہ جنگ نہ ریکشن کی بنیاد پر ہے اور نہ فاشزم ہے اور نہ کیفیت کا شکار جنگ ہے، نہ کسی قوت کا ایجنڈہ ہے، نہ کسی کی فرمائش، نہ کسی کی خواہش بلکہ بلوچ نیشنلزم و قومی سرزمین کی قبضہ گیریت کی کوکھ سے جنم پانے والا ایک خالص جنگ ہے۔ جس کی بنیاد سیاست و انسانیت سے شروع ہوکر اختتام بلوچ قومی آزادی کی شکل میں ہوگی۔
یہ جنگ نہ طبقاتی ہے، نہ مذہبی، نہ قبائلی ہے، نہ علاقائی بلکہ صرف اور صرف بلوچ قومی آزادی کی جنگ ہے، صرف اور صرف اس وقت دو طبقے ہماری سرزمین پر موجود ہیں، حاکم پاکستان اور محکوم بلوچ، اس کے علاوہ کوئی تضاد اور کوئی طبقہ موجود نہیں، اگر موجود ہے بھی تو وہ ثانوی تضاد و طبقات ہیں، جن کا حل حاکم و محکوم، ظالم و مظلوم، قابض و مقبوضہ جیسے بنیادی تضاد کے حل کے بعد ممکن ہے۔
جہاں ہم ایک طرف فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کامیابی کے ساتھ یہ جنگ نئی نسل کو منتقل کردی ہے اور اب یہ نسلِ نو کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اسے کہاں لیجائے لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھی ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم نئی نسل کے نئے نوجوانوں کو کیا منتقل کرچکے ہیں اور کیا دے رہے ہیں؟ اور ہم خود اندر ہی اندر کیا بن چکے ہیں؟ کیا بن رہے ہیں؟ کیا ہم جنگ کے ساتھ ساتھ کوئی ٹھوس تنظیم و ادارہ بھی ان کو فراہم کررہے ہیں؟ کیا ہم اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنی روایتی کوتاہ بینی، نادانیاں اور کمزوریاں بھی تو انہیں منتقل نہیں کررہے؟
کوئی بھی باشعور نوجوان اس پر آشوب دور میں قومی نظریئے اور مقصد کے تپش سے دور نہیں رہ سکتا، یہ پیغام ہر ایک تک جنگ خود پہنچارہی ہے، لیکن نظریہ و فکر کے علاوہ ہم انہیں کونسے خیالات، رویے، مزاج و کلچر فراہم کررہے ہیں؟
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہر نئی نسل کبھی پرانی نسل کو اختیار نہیں کرتا بلکہ پرانا نسل خود نئے نسل کے ساتھ ہم آہنگ و ہم خیال بن کر اسے راستہ فراہم کرتا ہے۔ ہم آہنگ ہوکر، ایک ساتھ چل کر قومی نجات و قومی انقلاب لانا ممکن ہوگا، اگر پرانی نسل شعوری یا لاشعوری بنیاد پرنئی نسل کے ساتھ ہم خیالی و ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکا اور انہیں راستہ فراہم نہیں کرسکا بلکہ راستہ روکنے کی کوشش کی گئی، بجائے حوصلہ افزائی کے حوصلہ شکنی پر اتر آیا گیا، تو نئی نسل اپنا راستہ خود الگ سے اختیار کرکے، پرانے جنگی نسل کو تنہائی کا شکار کردے گی۔ اور پرانی نسل محض اپنے جنگی قصے سنانے اور ان پر ناز کرنے کے لائق ہی بچے گا، ان سے عملی فائدہ تحریک کو شاید ہی کچھ ہو۔
6 جنوری 2001 کو خون کے بہاو سے جو چشمہ پھوٹا تھا، وہ اب دریا بن چکا ہے، اس دریا کو نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے تب تک بہتے جانا ہے جب تک اسکی دھارہ آزادی کے سمندر میں گرکر اس میں مدغم نہیں ہوجاتی۔ اگر اس بار، خون کے اس دریا کو خشک ہونے دیا گیا تو غلامی کی ایسی خشک سالی چھا جائے گی، جس سے پیدا قحط ہمارے تمام نسلوں کو ہڑپ کرجائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں