معلوم نہیں کونسی جرم کی سزا آٹھ سال کی جبری گمشدگی ہے – لواحقین سعید احمد

264

آٹھ سال قبل بلوچستان کے ضلع مستونگ سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانیوالے لیویز اہلکار سعید احمد کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے ہیں۔ اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی ان کے ہمراہ ہے۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں وہ کونسی جرم ہے جس کی سزا آٹھ سال سے زائد عرصہ کی جبری طور پر لاپتہ کرنا ہے۔ سعید احمد پر اگر کوئی الزام تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

لاپتہ سعید احمد کے ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ سعید احمد کو ان کے ایک کزن کے ہمراہ لاپتہ کیا گیا، بعدازاں کزن کو رہا کردیا گیا لیکن سعید احمد تاحال لاپتہ ہے۔ ہم نے اس حوالے سے پریس کانفرنس اور احتجاج کیا لیکن کوئی ہماری آواز نہیں سن رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھائی کے گمشدگی سے ہمارے گھر کے تمام افراد اذیت میں مبتلا ہے لہٰذا ہمیں انصاف دیا جائے۔

خیال رہے سعید احمد کو 8 سال قبل ان کے ایک کزن کے ہمراہ کوئٹہ سے مستونگ آتے ہوئے لدھا کے قریب مسلح افراد نے زبردستی گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جو آٹھ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باجود بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔

گذشتہ دنوں مستونگ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید احمد کے والدہ کا کہنا تھا کے میرے 2 بیٹوں کو اس سے قبل نامعلوم افراد قتل کرچکے ہیں اور سعید احمد کی جبری گمشدگی و بھائیوں کے بے رحمانہ قتل کے وجہ سے میری ایک بیٹی بھی دل برداشتہ ہوکر انتقال کرگئی ہے۔

لاپتہ سعید احمد کے والدہ کا کہنا تھا کہ ہم گذشتہ آٹھ سالوں سے اپنے بیٹے کی راہ تک رہے ہیں، حکام نے ہمیں کئی بار تسلی دی کی آپ کا بیٹا بے قصور ہے جنہیں کاغذی کاروائی کے بعد جلد رہا کیا جائے گا اور ایک مرتبہ ہمیں بیٹے کی رہائی کی خبر بھی دی گئی مگر آج تک ہمیں جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا ایک 23 سالہ جوان بیٹے میر محمد کو 2009 میں گھر سے بازار سودا لینے اپنے سائیکل پر گیا اور لاپتہ ہوگیا، کئی ہفتوں کی تلاش کے بعد ہمیں اسکی لاش گاوں کے قریب کاریز سے ملی جسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا جبکہ میرا ایک اور 17 سالہ بیٹا ریاض احمد 2012 میں گھر سے نکلا اور وہ بھی لاپتہ ہوگیا اور ہم نے تھانہ میں رپورٹ درج کرکے ہرجگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر کچھ عرصہ کے بعد میرے دوسرے بیٹے کی لاش آماچ کے پہاڑی علاقے سے ملی جس کو ظالموں نے شہید کرکے پہاڑوں میں پھینک دیا تھا۔