ماشکیل کا تعلیمی نظام جاگیرداروں کی مضبوط گرفت میں – الطاف بلوچ

200

ماشکیل کا تعلیمی نظام جاگیرداروں کی مضبوط گرفت میں

تحریر: الطاف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

محکوم قوم کا تعلیم و شعور حکمران طبقے امراء اور شرفاء کی سیاست کا کبھی موضوع نہیں ہوتا کیونکہ یہ طبقے قوم کے اسی تہذیبی شعور سے خائف رہتے ہیں۔ پالو فرائرے اپنی کتاب “تعلیم اور مظلوم عوام” میں لکھتے ہیں انسان تعلیم کے بغیر انسانی خصوصیات سے محروم ہیں جبکہ تعلیم ہی سے انسان کو انسانی محرومی کی سطح سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانیت کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب انسانی خصوصیات سے محرومی کو مقدر کے طور پر تسلیم کرنے کی بجائے ناانصافی پر مبنی ایک نظام کے لازمی نتیجہ کے طور پر سمجھا جائے، ظالموں کا ایک ایسا نظام جو مظلوموں کو انسانیت سے محروم کردیتا ہے۔ بالکل اسی تہذیبی شعور کے خوف سے ماشکیل کو بھی جاگیرداروں نے تعلیمی لحاظ سے بہت پسماندہ رکھا ہے، اتنا پسماندہ کہ یہاں درس و تدریس نامی عمل سے لوگ ناواقف ہیں، کتاب ایک نایاب چیز ہے۔ لائبریری، اسٹیشنری، سٹڈی سرکل، بک سٹال، تعلیمی سیمینار جیسے لفظوں سے ہم ناشناسا ہیں۔

ماشکیل میں سکول کے شاندار عمارتوں کی کمی نہیں مگر یہ فرضی سکول ہیں، محض امراء کے معاشی مراعات کیلئے کنسٹرکشن کے نام پر ہر چند سال بعد ٹینڈر ہوتے ہیں جو ایک مخصوص ٹولہ کیلئے معاشی مراعات کا ذریعہ ہیں۔ یہ خوبصورت عمارتیں کاغذی کاروائی تک محدود ہوتے ہیں، یہاں درس و تدریس کیلئے طلباء و اساتذہ کا وجود نہیں۔ دنیا نے اتنی ترقی کی کہ تدریسی عمل کیلئے روبوٹ ٹیچر ایجاد کی مگر ہمیں پرائمری تک پڑھانے کیلئے اساتذہ نہیں۔ ہماری محرومی مقدر کا فیصلہ نہیں سرکار اور سرکاری آلہ کاروں کا دانستہ فیصلہ ہے تاکہ مظلوموں میں احساسِ بیداری پیدا نہ ہوسکے۔

اس پسماندہ علاقے کا کالج سے محرومی نئی بات نہیں مگر کم از کم پہلے ہمیں میٹرک تک پڑھنے کا حق تھا اب میٹرک تک بھی پڑھنے کا حق نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے چند سال پہلے جب میں ہائی سکول میں تھا بڑی تعداد میں طلباء ماشکیل کے مضافاتی آبادی، کلک، تچاپ، لدگشت، آہوگو و دیگر بستیوں سے پرائمری و مڈل کے بعد ہائی سکول (ماشکیل کا واحد ہائی سکول ہے) میں آیا کرتے تھے جو پرائمری و مڈل سکولوں کے فعال ہونے کا نتیجہ تھا۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے اب اس واحد ہائی سکول میں ان بستیوں سے ایک بھی طالب علم نہیں جو جو مضافاتی آبادی میں سکولوں کی غیر فعالیت کا واضح ثبوت ہے اور ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے ایک اور رجحان فروغ پا رہا ہے کہ علاقے کے صاحب استطاعت لوگ صرف اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی حصول تعلیم کیلئے کوئٹہ تک رسائی کی تگ ودو میں ہوتے ہیں۔ یہ انفرادی طور پر ایک مثبت عمل ہے لیکن اجتماعی طور پر مسئلے کا منطقی حل نہیں کیونکہ کوئٹہ جیسے مہنگے شہر تک دسترس اور جاہ و مکان کا بندوبست قلیل تعداد میں صاحب استطاعت لوگوں کیلئے ممکن ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ علاقے میں فرسودہ نظام تعلیم پر خاموشی اور وجودی حالت سے فرار ماشکیل کے فرسودہ نظام تعلیم کی بقاء کیلئے معاون ثابت ہوگی۔ ہمیں انفرادیت سے نکل کر اجتماعی طور پر اس بوسیدہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے ضرورت ہے۔

ہم جب بھی ماشکیل میں فرسودہ نظام تعلیم پر سوال کرتے ہیں جواب میں مسلسل ایک بیانیہ دہرایا جاتا ہے کہ یہ ایک بارڈری علاقہ ہے یہاں تعلیمی نظام میں بہتری ممکن نہیں۔ در حقیقت یہ حکومتی نمائندوں اور جاگیرداروں کا بیانیہ ہے تاکہ ہم ان سے اپنی محرومیوں کا سوال نہ کریں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پنجگور بھی ماشکیل جیسا ایک بارڈری علاقہ ہے مگر تعلیمی درجہ بندی میں بلوچستان کے ٹاپ اضلاع میں سے ہے۔ وہاں تدریسی عمل اور تعلیم دوستی حکومتی نمائندوں اور جاگیرداروں کی مرہون منت نہیں بلکہ علاقے کے اجتماعی سوچ رکنھے والے باہمت تعلیم یافتہ لوگوں کی اپنی دن رات محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے بچوں کی حقوقِ تعلیم سے محرومی کے دکھ درد کو محسوس کی اور انفرادیت سے نکل کر اجتماعی بہتری کیلئے کوشیشیں کی۔

ماشکیل میں بھی بچوں کا مستقبل ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کے رحم و کرم پر ہے۔ انہی تعلیم یافتہ طبقہ کے علاوہ حکومتی نمائندوں اور سرکاری آفیسروں سے بہتری کی کوئی امید نہیں کیونکہ آفیسروں سے لیکر صاحب اقتدار حاکموں تک سب کے بچے پاکستان کے اعلی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اس لئے ماشکیل کا تعلیمی نظام قطعاً ان کا موضوع نہیں ہوگا۔ دراصل ہم مظلوموں کو علم و شعور سے دور رکھنا ان کی ہی پالیسی ہے کیونکہ جاگیردار قوتیں ہمیشہ مظلوموں کے شعور و آگاہی سے خائف رہتے ہیں۔ بہر کیف ہماری امیدیں تعلیم یافتہ طبقہ سے وابستہ ہیں اب ہمیں انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت کیلئے سوچنا ہوگا ورنہ نسلیں ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے۔

ببو نن داسہ ہمت کین
ببو لکھـــن ببو خوانن


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں